قرآن و سنت کی روشنی میں بھائیوں میں جائیداد کی تقسیم کا شرعی طریقہ
ماخوذ : فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)، جلد 2، صفحہ 235

جائیداد کی تقسیم کا شرعی حکم

سوال:

ہم تین سگے بھائی ہیں۔ ہمارے والد کی طرف سے ہمیں ایک چھوٹی سی جائیداد ملی تھی۔ ہمارے بڑے بھائی نے کئی سودے ہماری عدم موجودگی اور مشورے کے بغیر کیے، جن میں کچھ سے نفع ہوا اور کچھ سے نقصان۔ ہم نے کبھی ان معاملات پر اعتراض نہیں کیا، چاہے نفع ہوا ہو یا نقصان۔ ہم دونوں چھوٹے بھائی بڑے بھائی کے پیچھے لگے رہے، ان کے بچوں اور کاروبار کی بھی دیکھ بھال کرتے رہے۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے اور ہم تینوں کی مشترکہ محنت و کوشش کے نتیجے میں کافی جائیداد بن گئی ہے۔ اب ہم قرآن و سنت کی روشنی میں یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اس جائیداد کی تقسیم کیسے کی جائے؟

نوٹ: درمیانے بھائی کی عمر بڑے بھائی سے ڈیڑھ سال کم ہے جبکہ میری عمر بڑے بھائی سے ڈھائی سال کم ہے۔ اس وقت ہم تینوں 60 سال کی عمر کے قریب ہیں۔

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صورت مسئولہ میں چونکہ آپ تینوں بھائی مشترکہ طور پر والد کی چھوڑی ہوئی جائیداد کے وارث بنے تھے اور اس کے بعد کی جائیداد بھی تینوں کی مشترکہ محنت، تعاون اور کوشش سے وجود میں آئی ہے، اس لیے شرعاً آپ تینوں برابر کے شریک ہیں۔

اگر آپ کے والد کی جائیداد میں آپ تین بھائیوں کے علاوہ کوئی اور وارث موجود نہیں تھا، تو وہ تمام جائیداد آپ تینوں کے درمیان برابر برابر تقسیم کی جائے گی۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1