سوال
قرآن مجید کی ہر آیت کے آخر میں ایک گول نشان () درج ہوتا ہے۔ کیا وہاں پر وقف کرنا ضروری ہے یا پھر مروجہ طریقے کے مطابق ’’لا، ط، م، ک‘‘ وغیرہ جنہیں رموز القرآن کہا جاتا ہے، ان پر وقف کیا جائے؟ نیز وقف کی تفصیل بیان فرمائیں۔
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
احادیث مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آیات کے اختتام پر گول نشان پر وقف کیا جائے۔ جیسا کہ صحیح مسلم (کتاب الصلاة، باب وجوب القراءة الفاتحة فی کل رکعة، رقم الحدیث: ٨٧٨) میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
((قسمت الصلاة بيني وبين عبدي نصفين ولعبدي ما سأل، فإذا قال العبد الحمد لله رب العالمين قال الله تعالى حمدني عبدي، وإذا قال الرحمن الرحيم قال الله تعالى أثنى علي عبدي، وإذا قال مالك يوم الدين قال مجدني عبدي۔۔۔۔۔۔الخ))
اس حدیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب بندہ ٱلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ ٱلْعَالَمِينَ
پڑھتا ہے تو رب تعالیٰ جواب دیتا ہے، لہٰذا اس مقام پر کچھ وقف ہونا چاہیے تاکہ اللہ کا جواب شامل ہو۔ اسی طرح:
◈ ﴿ٱلرَّحْمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ﴾
◈ ﴿مَـٰلِكِ يَوْمِ ٱلدِّينِ﴾
◈ ﴿إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ۔۔۔۔۔۔الخ﴾
ان سب آیات پر بھی وقف کرنا ثابت ہے۔ مزید یہ کہ بعض احادیث میں ذکر آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک آیت کی تلاوت کے بعد کچھ توقف فرماتے اور پھر دوسری آیت کی تلاوت شروع کرتے۔
رموز القرآن اور اوقاف
◈ رموز القرآن یا اوقاف وغیرہ کا ذکر اور ثبوت کسی حدیث میں نہیں ملتا۔
◈ اس لیے ان پر عمل کرنا نہ فرض ہے اور نہ سنت مؤکدہ یا مستحب۔
◈ البتہ بعض مقامات ایسے ہیں جہاں اگر الفاظ کو اگلے کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے تو غلط مفہوم کا احتمال پیدا ہو سکتا ہے۔
مثال: سورۃ النساء (آیات 117-118)
﴿إِن يَدْعُونَ مِن دُونِهِۦٓ إِلَّآ إِنَـٰثًا وَإِن يَدْعُونَ إِلَّا شَيْطَـٰنًا مَّرِيدًا ﴿١١٧﴾ لَّعَنَهُ ٱللَّهُ ۘ وَقَالَ لَأَتَّخِذَنَّ مِنْ عِبَادِكَ نَصِيبًا مَّفْرُوضًا﴾
ترجمہ:
’’وہ اللہ کو چھوڑ کر پکارتے ہیں تو بتوں کو پکارتے ہیں اور سرکش شیطان کو، جس پر اللہ نے لعنت کی ہے، جس نے کہا تھا کہ میں تیرے بندوں میں سے ایک حصہ مقرر کرلوں گا۔‘‘
یہاں لَعَنَهُ اللَّهُ
اللہ تعالیٰ کی طرف سے شیطان پر لعنت ہے، جبکہ وَقَالَ
کے بعد کا جملہ شیطان کا قول ہے۔ اگر کوئی شخص لَعَنَهُ اللَّهُ
کو بغیر رکے ملا دے تو یہ غلط مفہوم پیدا ہوسکتا ہے کہ (نعوذ بالله) وَقَالَ
کا قائل بھی اللہ تعالیٰ ہیں۔ اس لیے اس مقام پر وقف کرنا ضروری ہے تاکہ معنی درست رہے۔
یہی وجہ ہے کہ یہاں مصاحف میں ’’وقف لازم‘‘ لکھا ہوتا ہے، مگر یہ لزوم شرعی معنی میں نہیں بلکہ محض آداب اور وضاحت کی خاطر ہے۔
خلاصہ
◈ آیات کے اختتام پر گول نشان () کے پاس تھوڑا سا توقف کرنا ثابت ہے۔
◈ رموز الاوقاف جیسے ’’لا، ط، م، ک‘‘ وغیرہ انسانی اجتہاد ہیں، شریعت نے انہیں لازم قرار نہیں دیا۔
◈ ان پر عمل کرنے سے کوئی گناہ نہیں اور نہ کرنے سے بھی کوئی حرج نہیں، مگر ان کو شرعی طور پر لازم سمجھنا درست نہیں۔
◈ بعض مقامات پر غلط معنی سے بچنے کے لیے وقف کرنا بہتر ہے، جیسے لَعَنَهُ اللَّهُ
کے بعد۔
◈ یہ سب قرآن کو ترتیل اور وضاحت سے پڑھنے کے آداب میں شامل ہے جیسا کہ قرآن میں فرمایا گیا: ﴿وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًا﴾ ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب