قرآن خوانی سے متعلق 12 غیر مستند دلائل کا جائزہ
اصل مضمون ابو یحییٰ امن پوری حفظہ اللہ کا تحریر کردہ ہے، اسے پڑھنے میں آسانی کے لیے عنوانات، اور اضافی ترتیب کے ساتھ بہتر بنایا گیا ہے۔

قریب الموت شخص، میت، یا قبر پر قرآن خوانی کی کوئی دلیل قرآن اور حدیث میں نہیں ملتی۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگیوں میں بھی اس کا کوئی ذکر نہیں پایا جاتا۔ تیجہ، قُل، جمعرات کا ختم، اور چہلم وغیرہ کو بدعت اور رسومات قرار دیا گیا ہے۔

یہ بات واضح ہے کہ قرآن، حدیث، اور اجماع کی روشنی میں ایصالِ ثواب کے جو طریقے ثابت ہیں، جیسے دعا، صدقہ وغیرہ، ان کو ہم مانتے ہیں اور ان پر عمل کرتے ہیں۔ تاہم، قرآن خوانی کے ثبوت کے لیے کوئی شرعی دلیل موجود نہیں ہے، اس لیے اسے بدعت تصور کیا جاتا ہے۔ بدعت کے پیروکاروں نے اسے اپنے دین کا حصہ بنا کر شکم پروری کا ذریعہ بنا لیا ہے۔

مبتدعین کے دلائل کا مختصر جائزہ

دلیل نمبر 1: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دو قبروں کے پاس سے گزرنا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دو قبروں سے گزر ہوا، جہاں دفن شدہ افراد پر عذاب ہو رہا تھا۔ ایک شخص پیشاب کی چھینٹوں سے بچنے کا اہتمام نہیں کرتا تھا اور دوسرا چغل خور تھا۔

”ثمّ أخذ جریدۃ رطبۃ ، فشقّھا بنصفین ، ثمّ غرز فی کلّ قبر واحدۃ ، قالوا : یا رسول اللّٰہ ! لم صنعت ھذا ؟ فقال : لعلّہ أن یخفّف عنھما ما لم ییبسا۔۔۔“
(صحیح بخاری: ١/١٨٢، ح: ١٣٦١، صحیح مسلم: ١/١٤١، ح: ٢٩٢)

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کی ایک تازہ شاخ لی اور اسے دو حصوں میں تقسیم کر دیا، پھر ہر قبر پر ایک شاخ گاڑ دی۔ صحابہ کرام نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول، آپ نے یہ کیوں کیا؟ فرمایا: شاید جب تک یہ دونوں خشک نہ ہوں، اللہ تعالیٰ ان دونوں کے عذاب میں تخفیف فرما دے۔

علمائے کرام کی رائے

حافظ نووی رحمہ اللہ نے لکھا ہے:

”استحبّ العلماء قراء ۃ القرآن لھذا الحدیث، لأنّہ إذا کان یرجی التّخفیف بتسبیح الجرید، فتلاوتہ أولیٰ، واللّٰہ أعلم!“
(شرح صحیح مسلم للنووی: ١/١٤١)

علمائے کرام نے اس حدیث کی روشنی میں قرآن کریم کی تلاوت کو مستحب سمجھا ہے، کیونکہ جب کھجور کی شاخوں کی تسبیح سے عذاب میں کمی کی امید کی جاتی ہے، تو قرآن کی تلاوت اس سے زیادہ فائدہ مند ہوگی۔

تبصرہ

اس حدیث سے قرآن خوانی کے جواز پر دلیل نہیں لی جا سکتی کیونکہ خیرالقرون (بہترین زمانہ) میں کسی نے اس کا قائل ہونا ثابت نہیں کیا۔ نیز اس حدیث میں کہیں ذکر نہیں کہ عذاب میں کمی ان شاخوں کی تسبیح کی وجہ سے ہوئی تھی، اس لیے یہ قیاس مع الفارق ہے۔ مزید برآں، یہ عمل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ تھا اور عذاب میں تخفیف ان کی دعا اور شفاعت کی وجہ سے ہوئی تھی، جیسا کہ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کی ایک اور روایت میں ہے:

”إنّی مررت بقبرین یعذّبان، فأحببت بشفاعتی أن یرفّہ ذاک عنھما، ما دام الغصنان رطبین“
(صحیح مسلم: ٢/٤١٨، ح: ٣٠١٢)

یعنی میں ایسی دو قبروں کے پاس سے گزرا، جہاں ان (مردوں) پر عذاب ہو رہا تھا۔ میں نے اپنی شفاعت کے سبب چاہا کہ جب تک یہ شاخیں تَر رہیں، ان پر سے عذاب ہلکا ہو جائے۔

مزید واقعات

ان دو مختلف واقعات میں علت ایک ہی ہے۔ اسی طرح کا ایک اور واقعہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے۔
(صحیح ابن حبان: ٨٢٤، وسندہ، حسنٌ)

مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ کریں:

(مصنف ابن ابی شیبہ: ٣/٣٧٦)
(مسند الامام احمد: ٢/٤٤١)
(عذاب القبر للبیہقی: ١٢٣، وسندہ، حسنٌ)

فائدہ

مورّق العجلی کہتے ہیں:

”أوصیٰ بریدۃ الأسلمیّ أن توضع فی قبرہ جریدتان، فکان مات بأدنی خراسان، فلم توجد إلّا فی جوالق حمار“
(الطبقات لابن سعد: ٧/٨، وسندہ، صحیحٌ ان صحّ سماع مورق عن بریدۃ)

سیدنا بریدہ الاسلمی رضی اللہ عنہ نے وصیت کی تھی کہ ان کی قبر پر دو شاخیں رکھی جائیں۔ آپ رضی اللہ عنہ خراسان کے علاقے میں وفات پا گئے، اور وہاں یہ شاخیں صرف گدھے کے بوجھ میں دستیاب ہوئیں۔ اگر اس کی صحت ثابت ہو، تو یہ سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ کی ذاتی رائے معلوم ہوتی ہے۔ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح عذاب میں تخفیف کی نیت سے نہیں بلکہ صرف شاخیں رکھنے کا حکم دیا تھا۔

مزید فائدہ

سیدنا ابو برزہ الاسلمی رضی اللہ عنہ سے منسوب روایت
(تاریخ بغداد: ١/١٨٢۔١٨٣)
”ضعیف“ ہے۔ اس کے دو راویوں، الشاہ بن عمار اور النضر بن المنذر بن ثعلبہ العبدی کے حالات نہیں مل سکے ہیں، اور دوسری بات یہ کہ قتادہ رحمہ اللہ "مدلس” ہیں۔ ان کا سیدنا انس رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی صحابی سے سماع ثابت نہیں ہے۔
(جامع التحصیل فی احکام المراسیل: ٢٥٥)

دلیل نمبر 2: سیدنا معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کی روایت

سیدنا معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

”اقرأوا علی موتاکم یٰسین“
"اپنے قریب المرگ لوگوں پر سورہ یٰس کی تلاوت کرو۔”
(مسند الامام احمد: ٥/٢٦، سنن ابی داو،د: ٣١٢١، السنن الکبرٰی للنسائی: ١٠٩١٤، سنن ابن ماجہ: ١٤٤٨)

اس حدیث کی صحت

امام ابن حبان (٣٠٠٢) اور امام حاکم نے اس حدیث کو "صحیح” قرار دیا ہے۔ تاہم، ان دونوں کی توثیق میں تساہل (نرمی) پایا جاتا ہے۔ اس حدیث کی سند "ضعیف” ہے، کیونکہ اس میں ابوعثمان کے والد شامل ہیں، جو کہ "مجہول” ہیں۔ اس روایت میں "المزید فی متصل الاسانید” کا مسئلہ بھی ہے، اور ابو عثمان نے سیدنا معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے سماع کی وضاحت نہیں کی، اس بنا پر یہ سند "ضعیف” قرار پاتی ہے۔

امام ابن حبان رحمہ اللہ کی تشریح

امام ابن حبان رحمہ اللہ نے فرمایا:

”أراد بہ من حضرتہ المنیّۃ لا أنّ المیّت یقرأ علیہ، وکذلک قولہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم: (لقّنوا موتاکم: لا إلہ إلّا اللّٰہ)“
"اس حدیث سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد قریب الموت شخص ہے، نہ کہ میت پر قرآن پڑھا جانا۔ اسی طرح، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کہ ‘اپنے مردوں کو لا الہ الا اللہ کی تلقین کرو’ بھی قریب المرگ شخص کے لیے ہے، میت کے لیے نہیں۔”

حافظ ابن القیم رحمہ اللہ نے بھی اسی تشریح کو ترجیح دی ہے【الروح لابن القیم: ص ١١】۔

فائدہ نمبر 1

”قال صفوان (بن عمرو): حدّثنی المشیخۃ أنّھم حضروا غضیف بن الحارث الثّمالی، قال: فکان المشیخۃ یقولون: إذا قرأت عند المیّت (یعنی یٰسۤ) خفّف عنہ بھا“
"صفوان بن عمرو نے کہا، مجھے بوڑھوں نے بتایا کہ وہ غضیف بن حارث الثمالی کے پاس حاضر ہوئے، اور وہ بوڑھے کہتے تھے کہ جب میت کے پاس سورہ یس کی تلاوت کی جائے، تو اس کی وجہ سے میت کے عذاب میں تخفیف ہوتی ہے۔”
(مسند الامام احمد: ٤/١٠٥)

یہاں ذکر کیے گئے بوڑھوں کا نام معلوم نہیں ہے، جس کی وجہ سے سند "مجہول” ہے اور اس بنا پر یہ "ضعیف” ہے۔ اسی لیے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا اس سند کو "حسن” قرار دینا درست نہیں ہے【الاصابہ فی تمییز الصحابۃ: ٣/١٨٤】۔

فائدہ نمبر 2

سیدنا ابو الدرداء اور سیدنا ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

”ما من میّت یموت، فیقرأ عندہ یٰسۤ إلّا ھوّن اللّٰہ عزّ وجلّ علیہ“
"جو میت وفات پاتی ہے، اور اس پر سورہ یس کی تلاوت کی جاتی ہے، اللہ تعالیٰ اس پر آسانی کردیتے ہیں۔”
(مسند الفردوس: ٦٠٩٩، التلخیص الحبیر لابن حجر: ٢/١٠٤)

اس حدیث کی سند "موضوع” (من گھڑت) ہے، کیونکہ اس میں مروان بن سالم الغفاری شامل ہے، جو کہ "متروک و وضاع” (چھوڑا گیا اور جھوٹا) راوی ہے۔

دلیل نمبر 3: سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی روایت

سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"جو کوئی قبرستان سے گزرے اور سورہ اخلاص اکیس مرتبہ پڑھ کر اس کا ثواب مردوں کو بخش دے، تو اسے تمام مردوں کی تعداد کے برابر ثواب دیا جائے گا۔”
(تاریخ قزوین: ٢/٢٩٧)

تبصرہ

یہ روایت انتہائی "ضعیف” ہے۔ اس کے راوی داؤد بن سلیمان الغازی کے بارے میں کوئی قابل اعتماد توثیق نہیں ملتی۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ اس کے بارے میں لکھتے ہیں:

"کذّبہ یحیی بن معین، ولم یعرفہ أبو حاتم، وبکل حال فھو شیخ کذّاب، لہ نسخۃ موضوعۃ عن علیّ بن موسیٰ الرضا، رواھا علیّ بن محمّد بن مھرویہ القزوینیّ الصّدوق عنہ۔”
(میزان الاعتدال للذہبی: ٢/٨)

یعنی، امام یحییٰ بن معین نے اسے کذاب قرار دیا ہے، جبکہ امام ابوحاتم نے اسے نہیں پہچانا۔ بہرحال، یہ شخص جھوٹا تھا اور اس کے پاس علی بن موسیٰ الرضا کا ایک من گھڑت نسخہ تھا۔ ایسی روایتوں سے دلیل لینا صرف اہل بدعت کا طرزِ عمل ہے۔

دلیل نمبر 4: سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"جو کوئی قبرستان میں داخل ہو اور سورہ یٰسین کی تلاوت کرے، تو اللہ تعالیٰ ان قبرستان والوں سے عذاب میں تخفیف فرماتے ہیں اور پڑھنے والے کو مردوں کی تعداد کے مطابق نیکیاں ملتی ہیں۔”
(شرح الصدور للسیوطی: ص ٤٠٤)

تبصرہ

یہ روایت جھوٹ کا پلندہ ہے۔ محدث البانی رحمہ اللہ نے اس کی سند کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے:

"أخرجہ الثعلبی فی تفسیرہ (٣/١٦١/٢) من طریق محمد بن أحمد الریاحی، حدّثنا أبی، حدّثنا أیوب بن مدرک عن أبی عبیدہ عن الحسن عن أنس بن مالک۔۔۔”
(السلسلۃ الضعیفۃ: ١٢٤٦)

اس کے راوی ایوب بن مدرک کو امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ نے "کذاب”، امام ابوحاتم الرازی، امام نسائی، اور امام دارقطنی رحمہم اللہ نے "متروک”، جبکہ امام ابو زرعہ الرازی، امام یعقوب بن سفیان جوزجانی، امام صالح بن محمد جزرہ، اور امام ابنِ عدی رحمہم اللہ نے "ضعیف” قرار دیا ہے۔

امام ابنِ حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"روی أیوب بن مدرک عن مکحول نسخۃ موضوعۃ ولم یرہ”
"ایوب بن مدرک نے امام مکحول سے ایک من گھڑت نسخہ روایت کیا ہے، حالانکہ انہوں نے مکحول کو دیکھا نہیں۔”
(لسان المیزان لابن حجر: ١/٤٨٨)

احمد بن ابی العوام الریاحی اور ابو عبیدہ کی توثیق مطلوب ہے۔

امام حسن بصری "مدلس” ہیں اور یہاں "عن” سے روایت کر رہے ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ سماع کی تصریح موجود نہیں ہے۔

دلیل نمبر 5: سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"جو کوئی قبرستان میں جائے اور پھر سورہ فاتحہ، سورہ اخلاص، اور سورۃ التکاثر پڑھے، پھر یہ کہے، ‘اے اللہ! جو میں نے تیرے کلام میں سے پڑھا، اس کا ثواب اس قبرستان والے مؤمن مردوں اور مؤمن عورتوں کو پہنچا دے’، تو وہ تمام اس کی سفارش اللہ تعالیٰ کے حضور کریں گے۔”
(فوائد لابی القاسم سعد بن علی الزنجی، بحوالہ شرح الصدور للسیوطی: ص ٤٠٤)

تبصرہ

یہ روایت سند کے بغیر ہے، اس لیے اسے "مردود و باطل” قرار دیا گیا ہے۔

دلیل نمبر 6: حماد مکی کا قصہ

حماد مکی نے بیان کیا کہ ایک رات میں مکہ شریف کے قبرستان میں گیا اور ایک قبر پر سر رکھ کر سو گیا۔ میں نے خواب میں دیکھا کہ قبر والے حلقوں میں تقسیم ہو کر کھڑے ہیں۔ میں نے پوچھا، کیا قیامت قائم ہوگئی ہے؟ انہوں نے جواب دیا، نہیں، بلکہ ہمارے بھائیوں میں سے کسی نے سورہ اخلاص پڑھ کر اس کا ثواب ہمیں بخش دیا ہے، اور ہم ایک سال سے اس کو تقسیم کر رہے ہیں۔
(شرح الصدور للسیوطی: ص ٤٠٤)

تبصرہ

یہ قصہ سند کے بغیر ہے، جس کی وجہ سے اسے "موضوع” (من گھڑت) اور "باطل” قرار دیا گیا ہے۔ حماد نامعلوم شخص ہے، اور اس طرح کے بے سند خواب کو دلیل کے طور پر پیش کرنا اہل بدعت کی دلیل سمجھی جاتی ہے۔

دلیل نمبر 7: الحسن بن الہیثم کی روایت

الحسن بن الہیثم کہتے ہیں کہ خطاب (نامی شخص) میرے پاس آیا اور مجھے کہا کہ جب تو قبرستان جائے تو سورہ اخلاص پڑھ اور اس کا ثواب قبرستان والوں کو بخش دے۔
(الامر بالمعروف والنھی عن المنکر للخلال: ٢٥٢)

تبصرہ

یہ قول "سخت ضعیف” ہے۔ اس کے راوی الحسن بن الہیثم کی توثیق دستیاب نہیں ہے، اور خطاب نامی شخص کے حالات اور اس کی توثیق یا عدالت کے شواہد بھی موجود نہیں ہیں۔

دلیل نمبر 8: ابراہیم نخعی کی رائے

ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ قبرستان میں قرآن پڑھنے میں کوئی حرج نہیں۔
(الامر بالمعروف والنھی عن المنکر للخلال: ٢٤٥)

تبصرہ

یہ قول "سخت ترین ضعیف” ہے، کیونکہ:

  • اس میں شریک بن عبداللہ القاضی "مدلس” ہیں اور وہ "عن” کے ساتھ بیان کر رہے ہیں، سماع کی وضاحت موجود نہیں ہے۔
  • "الری” نامی راوی کی شناخت اور توثیق درکار ہے۔
  • اگر یہ لوگ ابراہیم نخعی کے مقلد ہیں، تو انہیں اپنے امام سے باسندِ "صحیح” جواز پیش کرنا چاہیے۔
  • نامعلوم افراد کے بے سند خواب پیش کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

دلیل نمبر 9: الحسن بن عبدالعزیز الجروی کا قصہ

الحسن بن عبدالعزیز الجروی بیان کرتے ہیں کہ وہ اپنی ہمشیرہ کی قبر پر گئے اور وہاں انہوں نے سورہ تبارک الذی پڑھی۔ بعد میں ایک شخص نے خواب میں دیکھا کہ ان کی ہمشیرہ کہہ رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ میری طرف سے میرے بھائی کو جزائے خیر عطا فرمائے، جو اس نے پڑھا تھا، میں نے اس سے فائدہ اٹھایا۔
(الامر بالمعروف والنھی عن المنکر للخلال: ص ٢٤٦)

تبصرہ

اس قصے کے راوی ابویحییٰ الناقد کی توثیق درکار ہے۔ مزید یہ کہ امت کے افراد کے خواب شرعی حجت نہیں ہوتے۔

دلیل نمبر 10: امام شافعی رحمہ اللہ کی رائے

الحسن بن الصباح کہتے ہیں کہ میں نے امام شافعی رحمہ اللہ سے دریافت کیا کہ قبرستان میں قبروں پر قرآن پڑھنا کیسا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا، "کوئی حرج نہیں”۔

تبصرہ

اس قول میں ایصالِ ثواب کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے۔ اگرچہ قبر پر قرآنِ کریم کی تلاوت کے جواز پر بھی کوئی شرعی دلیل نہیں ہے۔

دلیل نمبر 11: خیثم کی وصیت

خیثم نے وصیت کی کہ جب انہیں قبرستان میں دفن کیا جائے تو ان کی قوم ان پر قرآن پڑھے۔
(الزھد للامام احمد: ٢١٢٢)

تبصرہ

اس کی سند "ضعیف” ہے کیونکہ:

  • اس میں سفیان ثوری "مدلس” ہیں اور وہ "عن” کے ساتھ بیان کر رہے ہیں، سماع کی وضاحت موجود نہیں ہے، لہٰذا سند "ضعیف” ہے۔
  • اس میں ایک نامعلوم شخص کا ذکر موجود ہے۔

دلیل نمبر 12: امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا قصہ

سلمہ بن شبیب کہتے ہیں کہ میں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے پاس آیا، جو نابینا امام کے پیچھے نماز پڑھتے تھے، جو کہ قبرستان میں قرآن پڑھا کرتے تھے۔
(الامر بالمعروف والنھی عن المنکر للخلال: ص ٢٤٧)

تبصرہ

یہ قول ثابت نہیں ہے۔ اس کے راوی العباس بن محمد بن احمد بن عبدالعزیز کی توثیق دستیاب نہیں ہے۔

خلاصہ

قرآن خوانی کا عمل شرعی دلائل سے ثابت نہیں ہے۔ سلف صالحین میں سے اس کا کوئی بھی قائل نہیں ہے، بلکہ یہ بعد کے بدعتیوں کی ایجاد ہے، جسے انہوں نے شکم پروری کے لیے رائج کیا ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے