قرآن اور امیہ بن ابی الصلت کا تنازع
تحریر: منیر عباسی

امیہ بن ابی الصلت کا تعارف

امیہ بن ابی الصلت عرب کے مشہور شاعر تھے جو قبیلہ ثقیف سے تعلق رکھتے تھے اور طائف میں مقیم تھے۔ ان کے خاندان میں شاعری کا رجحان تھا، جس میں ان کے والد اور بہن فارعہ بھی شامل تھیں۔ ان کی دو بیٹیاں اور کچھ قریبی رشتہ دار بھی شعر و شاعری میں ماہر تھے۔ امیہ کا بھائی ہذیل، جو محاصرہ طائف کے دوران قید ہوا، شرک کی حالت میں فوت ہوا۔

دینی رجحانات اور نبی ﷺ کا انتظار

امیہ ان چند شعراء میں سے تھے جو بتوں کی عبادت کو ناپسند کرتے تھے اور ایک واحد خدا پر ایمان رکھتے تھے۔ وہ آخرت پر یقین رکھتے، برے اخلاق اور جزیرۃ العرب کے فرسودہ رسم و رواج سے بیزار تھے، اور ایک آنے والے نبی کی آمد کا انتظار کرتے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ امیہ کا ماننا تھا کہ وہ خود اس نبی کے منصب پر فائز ہوں گے، مگر جب انہیں پتہ چلا کہ نبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺ ہیں، تو حسد کے باعث وہ اسلام قبول کرنے سے انکار کر گئے۔

نبی ﷺ کے ساتھ ملاقات اور اسلام سے انکار

روایات کے مطابق، امیہ نے ایک موقع پر مکہ میں نبی کریم ﷺ سے ملاقات کی اور سورہ یٰسین سنی، جس پر انہوں نے حضورﷺ کی حقانیت کی تصدیق کی۔ لیکن جب مشرکین مکہ نے ان کی رائے دریافت کی تو امیہ نے بغض و عناد کی وجہ سے اسلام قبول کرنے سے گریز کیا۔ کہا جاتا ہے کہ مدینہ منورہ کی طرف ایک اور سفر میں، جب وہ نبی ﷺ سے ملاقات کے ارادے سے جا رہے تھے، راستے میں مشرکین نے انہیں گمراہ کیا اور ان کے دل میں بدر کے مقتولین کا انتقام بھر دیا، جس کے نتیجے میں وہ اسلام لانے سے پھر گئے اور شرک پر ہی مر گئے۔

امیہ کے اشعار اور قرآن سے مشابہت کا الزام

امیہ کے دیوان میں ایسے اشعار ملتے ہیں جن کی نسبت ان کی طرف مشکوک ہے۔ ان اشعار میں خدا کی حمد، قیامت، فرشتوں کی مدح سرائی، اور انبیاء کے واقعات کا ذکر ملتا ہے۔ کچھ مستشرقین اور عیسائی مشنری یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ قرآن کریم نے امیہ کے اشعار سے اقتباس کیا ہے، مگر جید محققین، خواہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم، اس بات کی تردید کرتے ہیں۔

مستشرقین کی رائے

  • جرمن مستشرقکارل بروکلمان اور فرانسیسی مستشرقتور اندریہ کا کہنا ہے کہ امیہ کے نام سے منسوب دینی اشعار دراصل ان کی طرف غلط طور پر منسوب کیے گئے ہیں۔
  • عربی ادب کے نامور محقق ڈاکٹر طہ حسینڈاکٹر شوقی ضعیف، اور ڈاکٹر جواد علی بھی اس بات پر متفق ہیں کہ امیہ کے وہ اشعار جنہیں قرآن سے مشابہت دی جاتی ہے، بعد کے قصہ گوؤں اور واعظوں کی تخلیق ہیں۔

تاریخی شواہد اور ردّ اعتراضات

تاریخی روایات سے ثابت ہے کہ نہ امیہ نے خود، نہ ان کے خاندان کے کسی فرد نے، اور نہ ہی عرب کے کسی قبیلے نے یہ اعتراض اٹھایا کہ قرآن امیہ کے اشعار کی نقل ہے۔ اگر یہ حقیقت ہوتی، تو امیہ کے قبیلے کے افراد، جو ابتدائی دور میں اسلام کے مخالف تھے، اس اعتراض کو ضرور اٹھاتے۔

اہم نکات

  • اگر امیہ کے اشعار قرآن کے مصادر ہوتے تو امیہ کو نبی ﷺ کے سامنے یہ دعویٰ کرنا چاہیے تھا کہ قرآن میں ان کے اشعار کو چوری کیا گیا ہے، لیکن ایسا کوئی دعویٰ نہیں ملتا۔
  • امیہ کی بہن فارعہ اور ان کے بیٹے اسلام قبول کر چکے تھے، مگر انہوں نے کبھی یہ بات نہیں کہی کہ قرآن، امیہ کے اشعار سے ماخوذ ہے۔
  • اگر قرآن واقعی امیہ کے اشعار سے اخذ کیا گیا ہوتا تو اس وقت کے مخالفین اسلام، جیسے کہ ابو محجن ثقفی اور حجاج بن یوسف، ضرور اس کو بنیاد بنا کر اسلام کے خلاف استعمال کرتے۔

نتیجہ

یہ بات واضح ہے کہ قرآن کریم کی آیات کا امیہ بن ابی الصلت کے اشعار سے کوئی تعلق نہیں۔ جو اعتراضات اٹھائے گئے، وہ بعد کے دور میں قصہ گوؤں کی اختراعات پر مبنی ہیں۔ قرآن اللہ کی وحی ہے اور اس کی مثال کسی انسانی کلام میں نہیں مل سکتی۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے