قرآنی آیات کی روشنی میں ہدایت اور پوچھ گچھ کا مفہوم

سوال:

سورۃ الشوریٰ کی آیت "وَاِنَّكَ لَتَهۡدِىۡۤ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسۡتَقِيۡمٍۙ” [الشوریٰ: 52] "اور بے شک، آپ سیدھے راستے کی ہدایت دیتے ہیں۔”
اور سورۃ القصص کی آیت "اِنَّكَ لَا تَهۡدِىۡ مَنۡ اَحۡبَبۡتَ” [القصص: 56] "بے شک، آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے۔”

کی تشریح میں یہ کہنا کہ کسی کو یہ کہنا "تم نے یہ کام کیوں نہیں کیا” ہدایت نہیں، کیا درست ہے؟

جواب از فضیلۃ العالم فہد انصاری حفظہ اللہ

ان آیات سے یہ استدلال کرنا کہ کسی کو نیکی کرنے یا غلطی پر سوال کرنا ہدایت نہیں، درست نہیں کیونکہ یہ تفسیر بالرائے (ذاتی رائے پر مبنی تفسیر) ہے اور سلف صالحین سے اس کی کوئی بنیاد نہیں ملتی۔

وضاحت:

◈ اگر کسی کو نیکی کی طرف بلانے یا غلطی پر سوال کرنے کو ان آیات کے خلاف سمجھا جائے تو یہ درست نہیں ہوگا، کیونکہ سلف صالحین اور اہل علم نے کبھی ایسا استدلال نہیں کیا۔
◈ البتہ، نصیحت کا انداز اور موقع محل اہمیت رکھتے ہیں، یعنی اگر کسی کا انداز غلط ہو یا موقع نامناسب ہو تو اس کی اصلاح کی جا سکتی ہے۔
◈ لیکن یہ تصور کہ کسی کو نیکی کا حکم نہ دیا جائے، کسی سے پوچھ تاچھ نہ کی جائے، نہ استاد شاگرد سے، نہ والدین اولاد سے، نہ شوہر بیوی سے— یہ سوچ دیگر ثابت شدہ اسلامی تعلیمات اور شرعی دلائل کے خلاف ہے۔

نتیجہ:

قرآن کریم کی ان آیات کو غلط مفہوم میں لے کر یہ کہنا کہ کسی کو نیکی کی تلقین کرنا یا کسی سے پوچھنا ہدایت نہیں، یہ درست تفسیر نہیں ہے۔
دینِ اسلام میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر (اچھائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا) ایک بنیادی اصول ہے، جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1