ملحدوں كا مستشرقین سے نقل كردہ ایك شبہہ :
ایک ملحد لکھتا ہے.
“امرؤ القیس زمانہ قبلِ اسلام کا ایک شاعر تھا جس کا اِنتقال سن 540ء میں ہؤا (یعنی آنحضرت محمدﷺ کی وِلادت سے بھی تِیس برس پہلے اور نزول وحی سے ستر سال پہلے)۔ اُس کا ایک مشہور قصِیدہ ہے جس سے قُرآنِ مجید میں بہُت سارے اِقتِباسات نقل کئے گئے ہیں۔ اِس کا ثبوت یہ چند اشعار ہیں:
دنت الساعة وانشق القمر عن غزال صاد قلبي ونفر
أحورٌ قد حِرتُ في أوصافه ناعس الطرف بعينيه حوَر
مرّ يوم العيد بي في زينة فرماني فتعاطى فعقر
بسهامٍ من لحاظٍ فاتك فرَّ عنّي كهشيم المحتظر
وإذا ما غاب عني ساعة كانت الساعة أدهى وأمر
كُتب الحُسن على وجنته بسحيق المسك سطراً مختصر
عادةُ الأقمارِ تسري في الدجى فرأيتُ الليل يسري بالقمر
بالضحى والليل من طرته فرقه ذا النور كم شيء زهر
قلت إذ شقّ العذار خده دنت الساعة وانشق القمر
پہلے شعر کا پہلا مصرعہ سورة القمر (54)، آیت 1 میں آیا ہے: ‘‘اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَا نْشَقَّ القَمَرُ۔’’
تیسرے شعر کا دوسرا مصرعہ بھی سورة القمر (54) کی آیت 29 میں آیا ہے:‘‘فَنَادَوْا صَاحِبَهُمْ فَتَعَاطَى فَعَقَرَ۔’’
چوتھے شعر کا دوسرا مصرعہ بھی اسی سورہ کی آیت31میں آیا ہے: ‘‘فَكَانُوا كَهَشِيمِ المُحْتَظِرِ .’’
آٹھویں شعر کا پہلا مصرعہ سورة الضحیٰ کی آیات 1 اور 2 میں آیا ہے: ‘‘وَالضُّحَى وَاللَّيْلِ إِذَا سَجَى .’’
شبہہ کا جواب
1. اشعار کا عدم وجود
پہلی بات یہ کہ ان اشعار کا کوئی وجود عربی ادب کی کسی بھی مستند کتاب میں نہیں ملتا۔ یہ نہ تو امرؤ القیس کے دیوان میں ہیں اور نہ ہی کسی قدیم مستند ماخذ میں۔
2. امرؤ القیس کے دیوان
امرؤ القیس کے دیوان کی کئی طبعات موجود ہیں، جن میں الأعلم الشنتمري، الطوسي، السكري، البطليوسي اور ابن النحاس کی طبعات شامل ہیں، لیکن ان اشعار کا ذکر ان میں کہیں نہیں ملتا۔
3. امرؤ القیس کی شاعری کی تحقیق
امرؤ القیس کے اشعار پر کثیر محنت ہوئی ہے، اس کی شاعری کو جمع کرنے اور روایت کرنے میں محققین نے بڑی محنت کی ہے۔ ان کا کلام کسی سے پوشیدہ نہیں رہا، اس لئے کوئی بھی اسکالر جانتا ہے کہ یہ اشعار امرؤ القیس سے منسوب نہیں ہیں۔
4. جدید تحقیق میں اشعار کا ذکر
امرؤ القیس کے اشعار پر ہونے والی تمام تحقیقات میں ان اشعار کا کوئی ذکر نہیں ملتا، نہ تو یہ اشعار اس کے دیوان میں ہیں اور نہ ہی ان کو کہیں امرؤ القیس سے منسوب کیا گیا ہے۔
5. اشعار کا غلط انتساب
قدیم زمانے میں بعض اشعار اور قصے معروف شاعروں کی طرف منسوب کر دیے جاتے تھے، جیسے کہ حماد الراویہ اور خلف الاحمر کا کام ہی یہی تھا کہ وہ اشعار گھڑ کر قدیم شاعروں کی طرف منسوب کرتے تھے۔
6. تحقیق اور اصل شاعر کا تعین
کئی مرتبہ ایسے اشعار جو قدیم شعرا کی طرف منسوب ہوتے ہیں، ان کے اصل شاعر کا ذکر دوسرے مقامات پر مل جاتا ہے۔ روح المعانی میں آلوسی نے ایسی مثالیں دی ہیں جہاں رازی نے نشاندہی کی ہے کہ بعض اشعار میں شاعر کی نسبت واضح نہیں ہے اور وہ بعد کی پیداوار ہیں۔
7. قرآن اور امرؤ القیس کی شاعری میں فرق
اہل عرب امرؤ القیس کے کلام کو اچھی طرح جانتے تھے، اگر قرآن کے کسی کلام میں امرؤ القیس کے اشعار کا سرقہ ہوتا تو اہل عرب فوراً اعتراض کرتے، لیکن نبی کریم ﷺ کی حیات میں اس طرح کا کوئی الزام نہیں لگا۔
8. اشعار کی بے ربطی
پیش کیے گئے اشعار کی بناوٹ اور اسلوب بے وزن اور ناقص ہیں، جن میں کوئی منطق یا فصاحت نظر نہیں آتی۔ انشقاق قمر یا قیامت کا ذکر بھی جاہلی عرب معاشرت میں نہیں پایا جاتا۔
9. "فتعاطی فعقر” کا بے محل استعمال
"فتعاطی فعقر” جیسی قرآنی اصطلاحات کو ان اشعار میں بے جا طور پر استعمال کیا گیا ہے، جو شعر کی فصاحت کو متاثر کرتے ہیں۔
10. "كهشيم المحتظر” کا بے جا استعمال
اس ترکیب کا استعمال یہاں غیر موزوں ہے، جس سے واضح ہوتا ہے کہ الفاظ کی طاقت کے بغیر اسے کسی بھی قرآنی اسلوب سے جوڑنے کی کوشش کی گئی ہے۔
11. اشعار میں الفاظ کی رد و بدل
پہلے شعر میں "اقتربت” کی جگہ "دنت” کر دیا گیا تاکہ اشعار کی بے وزنی کو چھپایا جا سکے، جو ایک اور دھوکہ دہی کی مثال ہے۔
12. ادبی تحقیق میں مستشرقین کی خرافات
یہ دعویٰ کہ امرؤ القیس کے اشعار قرآن سے ملتے ہیں، انیسویں صدی میں مستشرقین کی پھیلائی ہوئی خرافات کا حصہ ہے۔ ٹسڈل جیسے مستشرقین نے بھی اس افسانے کو اپنی کتابوں میں ذکر کیا لیکن خود اس کا رد بھی کر دیا۔
مستشرق ٹسڈل کی وضاحت
ٹسڈل نے اپنی کتاب The Original Sources of the Qur’an میں خود اس بات کو مسترد کر دیا کہ نبی کریم ﷺ نے امرؤ القیس کے کلام سے اقتباسات لیے۔ ٹسڈل کے مطابق یہ کہانی فرضی ہے اور امرؤ القیس کا انتقال نبی کریم ﷺ کی ولادت سے پہلے ہو چکا تھا۔
ملحدین کے کمنٹس کی حقیقت
ملحدین نے امرؤ القیس کی شاعری میں قرآنی آیات کے شامل ہونے کا دعوی کیا ہے، لیکن یہ دعوی بے بنیاد اور محض تاثر پیدا کرنے کے لئے کیا گیا ہے۔ نہ تو انہوں نے کوئی معتبر حوالہ فراہم کیا ہے اور نہ ہی کسی مستند کتاب کا ذکر کیا ہے۔
نتیجہ
امرؤ القیس کے نام سے منسوب اشعار بے بنیاد اور من گھڑت ہیں۔ ان کا اصل مقصد محض قرآن کی حقانیت پر شک ڈالنا ہے، حالانکہ اس کے پیچھے کوئی معتبر دلیل یا تحقیق موجود نہیں ہے۔