قتلِ سلام بن ابی الحقیق اور اعتراضات کا علمی و شرعی تجزیہ
ماخوذ : فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری، جلد 1، صفحہ 133

سوال:

کیا نبی کریم ﷺ کے ایماء پر خیبر میں سلام بن ابی الحقیق کو قتل کرنا شرعاً جائز تھا؟

اس سوال کے پس منظر میں رسالہ "طلوع اسلام” دہلی کی جانب سے شدید اعتراضات کیے گئے، جن میں دعویٰ کیا گیا کہ یہ واقعہ (اور اس جیسے دیگر واقعات) خلفائے بنی امیہ و بنی عباس کی طرف سے بنائی گئی سیاسی چالوں پر مبنی جعلی روایات ہیں، تاکہ وہ اپنے مخالفین کو قتل کرنے کو جائز ثابت کر سکیں۔ ان کے مطابق ایسی روایات شانِ نبوت کے خلاف ہیں اور انہیں مکذوب (جھوٹی) و مکروہ کہا گیا ہے۔

جواب

الحمد للہ، والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ، اما بعد:

واقعہ: قتلِ سلام بن ابی الحقیق

یہودی تاجر سلام بن ابی الحقیق، خیبر میں رہائش پذیر اور ’’تاجر الحجاز‘‘ کے نام سے مشہور تھا۔ اس نے نبی کریم ﷺ اور مسلمانوں کو بے حد اذیتیں دیں، جنگ احزاب میں قریش و دیگر قبائل کو مسلمانوں پر حملے کے لیے ابھارا اور مالی معاونت کی۔ اس کی فتنہ انگیزیوں اور سازشوں کے نتیجے میں نبی کریم ﷺ نے صحابی عبداللہ بن عتیکؓ کو اس کے قتل کے لیے روانہ کیا۔

واقعہ صحیح بخاری، فتح الباری، طبقات ابن سعد اور دیگر کتب سیرت و مغازی میں تفصیل سے موجود ہے۔ عبداللہ بن عتیکؓ نے خیبر پہنچ کر حکمت عملی سے قلعہ میں داخل ہوکر سلام کو قتل کیا، اور بغیر کسی عورت یا بچے کو نقصان پہنچائے واپس مدینہ لوٹے۔

مذکورہ واقعہ سے چند حقائق

◈ سلام بن ابی الحقیق نے مسلمانوں سے کیے گئے معاہدے کی خلاف ورزی کی (نقضِ عہد)۔
◈ مسلمانوں کو تکلیفیں دیں اور نبی کریم ﷺ کے خلاف سازشیں کیں۔
◈ مشرکین کو مسلمانوں کے خلاف ابھارا اور ان کی مالی امداد کی۔
◈ جنگ خندق جیسی مہلک جنگ میں اس کا کردار مرکزی تھا۔
◈ ایسے فتنہ پرور شخص کے قتل کے لیے اعلانِ جنگ کی ضرورت نہ تھی، بلکہ حکمتِ عملی سے فتنہ کا قلع قمع کرنا زیادہ مؤثر تھا۔

اعتراضات اور ان کے جوابات

اعتراض: یہ روایات جعلی ہیں، شانِ نبوت کے خلاف ہیں
جواب: یہ واقعات صحیح بخاری اور دیگر معتبر کتب میں بیان ہوئے ہیں، جن کے رواۃ ثقہ اور قابلِ اعتماد ہیں۔ ان روایات پر محض عقل کی بنیاد پر اعتراض کرنا علمی دیانت کے خلاف ہے۔

اعتراض: قتل کا حکم عقل کے خلاف ہے
جواب: عقل کی کسوٹی ہر دور اور ہر فرد میں مختلف ہوتی ہے۔ قرآن و سنت کی بنیاد پر شرعی احکام طے ہوتے ہیں، نہ کہ متغیر انسانی عقل پر۔

اعتراض: نبی ﷺ نے خفیہ تدبیر سے قتل کروایا، یہ عمل معیوب ہے
جواب: یہ عمل نہ صرف عقل کے مطابق ہے بلکہ قرآن کی تعلیم
﴿وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ﴾
(البقرہ: 217) کے مطابق بھی۔ فتنہ انگیز عناصر کا خاتمہ مسلمانوں کی سلامتی کے لیے ناگزیر تھا۔

قرآن اور سنت کی روشنی میں حدیث کی حجیت

حدیثِ نبوی ﷺ وحی غیر متلو ہے، اور قرآن کریم میں متعدد مقامات پر اس کی اطاعت کو واجب قرار دیا گیا:

﴿وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا﴾
(الحشر: 7)

﴿مَن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ﴾
(النساء: 80)

﴿وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ﴾
(النساء: 59)

ان آیات سے واضح ہے کہ نبی کریم ﷺ کا ہر فرمان اور عمل قابلِ اطاعت ہے۔

نتیجہ اور خلاصہ

نبی کریم ﷺ نے نہ صرف سلام بن ابی الحقیق جیسے فتنہ پرور اور خطرناک دشمن کا خاتمہ کروایا، بلکہ اس عمل کے ذریعے امت کو یہ تعلیم دی کہ فتنہ و فساد کو جڑ سے ختم کرنا ضروری ہے، چاہے وہ فتنہ کسی قلعے میں چھپا ہوا ہو۔

طلوع اسلام کی جانب سے کی گئی تنقید نہ صرف ضعیف بنیادوں پر ہے، بلکہ حدیث اور نبوت کے فہم سے لاعلمی پر مبنی ہے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1