قبلہ رخ ہوکر پیشاب کرنے کا جواز اس صورت میں ہے جب سامنے کوئی پردہ، دیوار، یا اوٹ حائل ہو۔ اس بارے میں وارد احادیث درج ذیل ہیں:
سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِذَا أَتَیْتُمُ الْغَائِطَ فَلاَ تَسْتَقْبِلُوا القِبْلَۃَ، وَلاَ تَسْتَدْبِرُوہَا وَلٰکِنْ شَرِّقُوا أَوْ غَرِّبُوا، قَالَ أَبُو أَیُّوبَ : فَقَدِمْنَا الشَّأْمَ فَوَجَدْنَا مَرَاحِیضَ بُنِیَتْ قِبَلَ الْقِبْلَۃِ فَنَنْحَرِفُ، وَنَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ تَعَالٰی .
”(مدینہ والو!) قضائے حاجت کے وقت قبلہ کی طرف منہ کرو، نہ پیٹھ، بلکہ مشرق یا مغرب کی طرف رخ کر لو۔ سیدنا ابو ایوب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ہم شام کے علاقے میں گئے، وہاں باتھ روم قبلہ رخ بنے ہوئے تھے۔ ہم اپنا رخ قبلہ سے پھیر لیتے اور ‘استغفر اللہ’ پڑھتے۔” (صحیح البخاری: 394، صحیح مسلم: 264)
سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
قِیلَ لَہ، : قَدْ عَلَّمَکُمْ نَبِیُّکُمْ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کُلَّ شَيْءٍ حَتَّی الْخِرَاء َۃَ قَالَ : فَقَالَ : أَجَلْ لَقَدْ نَہَانَا أَنْ نَّسْتَقْبِلَ الْقِبْلَۃَ لِغَائِطٍ، أَوْ بَوْلٍ، أَوْ أَنْ نَّسْتَنْجِيَ بِالْیَمِینِ، أَوْ أَنْ نَّسْتَنْجِيَ بِأَقَلَّ مِنْ ثَلَاثَۃِ أَحْجَارٍ، أَوْ أَنْ نَّسْتَنْجِيَ بِرَجِیعٍ أَوْ بِعَظْمٍ .
”انہیں کہا گیا کہ تمہارا نبی تو تمہیں ہر چیز سکھاتا ہے، حتی کہ قضائے حاجت کے اصول بھی سمجھاتا ہے۔ سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں قضائے حاجت کے لیے قبلہ رخ ہوکر بیٹھنے، دائیں ہاتھ، تین پتھروں سے کم اور لید یا ہڈی سے استنجا کرنے سے منع فرمایا ہے۔” (صحیح مسلم: 262)
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِذَا جَلَسَ أَحَدُکُمْ عَلٰی حَاجَتِہٖ، فَلَا یَسْتَقْبِلِ الْقِبْلَۃَ، وَلَا یَسْتَدْبِرْہَا .
”قضائے حاجت کے لیے کوئی قبلہ کی طرف نہ منہ کرے، نہ پیٹھ۔” (صحیح مسلم: 265)
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے تھے:
إِنَّ نَاسًا یَّقُولُونَ : إِذَا قَعَدْتَّ عَلٰی حَاجَتِکَ فَلاَ تَسْتَقْبِلِ الْقِبْلَۃَ وَلاَ بَیْتَ الْمَقْدِسِ، فَقَالَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ : لَقَدِ ارْتَقَیْتُ یَوْمًا عَلٰی ظَہْرِ بَیْتٍ لَّنَا، فَرَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلٰی لَبِنَتَیْنِ، مُسْتَقْبِلًا بَّیْتَ الْمَقْدِسِ لِحَاجَتِہٖ .
”لوگ کہتے ہیں کہ قضائے حاجت کے لیے بیت اللہ اور بیت المقدس کی طرف منہ نہیں کیا جا سکتا، جبکہ میں نے اپنے گھر کی چھت پر چڑھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بیت المقدس کی طرف منہ کر کے قضائے حاجت کرتے دیکھا۔” (صحیح البخاری: 145، صحیح مسلم: 266)
ایک روایت میں ہے:
اِرْتَقَیْتُ فَوْقَ ظَہْرِ بَیْتِ حَفْصَۃَ لِبَعْضِ حَاجَتِي، فَرَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقْضِي حَاجَتَہ، مُسْتَدْبِرَ الْقِبْلَۃِ، مُسْتَقْبِلَ الشَّأْمِ .
”اپنے کسی کام کی غرض سے میں سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے گھر کی چھت پر چڑھا۔ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شام کی طرف رخ اور قبلہ کی طرف پیٹھ کر کے قضائے حاجت کر رہے تھے۔” (صحیح البخاری: 148، صحیح مسلم: 266)
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ان لوگوں کو جواب دیا جو قبلہ رخ ہوکر پیشاب کرنا ناجائز سمجھتے تھے کیونکہ انہوں نے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قبلہ رخ ہوکر پیشاب کرتے دیکھا تھا۔ جبکہ سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کو ممانعت والی حدیث معلوم تھی لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ان کے علم میں نہیں آیا، اسی لیے انہوں نے فرمایا:
مَا أَصْنَعُ بِہٰذِہِ الْکَرَابِیسِ، وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إِذَا ذَہَبَ أَحَدُکُمُ الْغَائِطَ أَوِ الْبَوْلَ فَلَا تَسْتَقْبِلُوا الْقِبْلَۃَ أَوْ قَالَ الْکَعْبَۃَ بِفَرْجٍ .
”میں ان باتھ رومز کا کیا کروں؟ جب کہ میں نے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ عالی شان سن رکھا ہے کہ قضائے حاجت کے وقت کوئی قبلہ رخ نہ ہو۔” (مصنف ابن ابی شیبۃ: 1/139، وسندہ، صحیحٌ)
سیدنا جابر بن عبد اللہ انصاری رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:
کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ نَہَانَا أَنْ نَّسْتَقْبِلَ الْقِبْلَۃَ وَنَسْتَدْبِرَہَا بِفُرُوجِنَا لِلْبَوْلِ، ثُمَّ رَأَیْتُہ، قَبْلَ مَوْتِہٖ بِعَامٍ یَّبُولُ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَۃِ .
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں قبلہ کی طرف منہ اور پیٹھ کر کے پیشاب کرنے سے منع کرتے تھے۔ پھر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو موت سے ایک برس پہلے قبلہ رخ پیشاب کرتے ہوئے دیکھا۔” (مسند الإمام أحمد: 3/360، سنن أبي داو،د: 13، سنن الترمذي: 9، سنن ابن ماجۃ: 31، شرح معاني الآثار: 4/234، وسندہ، حسنٌ)
اس حدیث کو امام ابن خزیمہ (58)، امام ابن حبان (1420) اور امام ابن الجارود (31) نے "صحیح” قرار دیا ہے۔ امام حاکم رحمہ اللہ نے اسے "امام مسلم کی شرط پر صحیح” کہا، حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی، اور امام ترمذی رحمہ اللہ نے اسے "حسن” کہا ہے۔ حافظ نووی رحمہ اللہ (شرح صحیح مسلم: 3/155) اور حافظ ابن ملقن رحمہ اللہ (البدر المنیر: 2/307) نے بھی سند کو "حسن” قرار دیا ہے۔ امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اس کے راویوں کے بارے میں فرمایا:
کُلُّھُمْ ثِقَاتٌ . ”سارے راوی ثقہ ہیں۔”(سنن الدارقطني: 1/59)
سلیمان بن زیاد مصری بیان کرتے ہیں:
دَخَلْنَا عَلٰی عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ جَزْءٍ الزُّبَیْدِيِّ فِي یَوْمِ جُمُعَۃٍ، فَدَعَا بِطَسْتٍ، وَقَالَ لِلْجَارِیَۃِ : اسْتُرِینِي، فَسَتَرَتْہ، فَبَالَ فِیہِ، ثُمَّ قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَنْہٰی أَنْ یَّبُولَ أَحَدُکُمْ مُّسْتَقْبِلَ الْقِبْلَۃِ .
”ایک جمعہ ہم سیدنا عبد اللہ بن حارث بن جزء زبیدی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ انہوں نے سلفچی منگوایا اور ایک بچی سے کہا کہ مجھے پردہ کرے، اس نے پردہ کیا، پھر آپ نے اس برتن میں پیشاب کیا اور کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روبہ قبلہ پیشاب کرنے سے منع فرمایا۔”
(صحیح ابن حبّان: 1419، وسندہ، حسنٌ)
فقہی تشریح
ان احادیث کی رو سے اکثر محدثین، قبلہ کی طرف رخ کر کے پیشاب کرنے سے متعلق ممانعت کو صحرا کی حالت پر محمول کرتے ہیں۔ اگر کوئی پردہ یا دیوار ہو تو جواز ہے۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ یہ ممانعت کراہت تنزیہی کی صورت میں ہے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے خود قبلہ کی طرف رخ کر کے پیشاب کرنا بھی ثابت ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ اس موضوع پر ایک باب قائم کرتے ہیں:
بَابٌ : لَا تُسْتَقْبَلُ الْقِبْلَۃُ بِغَائِطٍ أَوْ بَوْلٍ إِلَّا عِنْدَ الْبَنَائِ، جِدَارٍ أَوْ نَحْوِہٖ .
”اس بات کا بیان کہ قضائے حاجت کے لیے قبلہ رخ نہ ہوا جائے، سوائے اس کے کہ دیوار وغیرہ کی صورت میں کوئی عمارت حائل ہو۔”
شارحِ صحیح مسلم حافظ نووی رحمہ اللہ (631-676ھ) لکھتے ہیں:
”جو احادیث قبلہ رخ پیشاب کرنے کی ممانعت میں آئیں ہیں، انہیں صحرا پر محمول کریں گے، اور علمائے کرام کے ہاں یہ طے شدہ بات ہے کہ جب احادیث میں تطبیق ممکن ہو تو انہیں چھوڑنا جائز نہیں۔ تمام احادیث پر عمل واجب ہے، اور یہاں بھی یہی اصول لاگو ہوتا ہے۔ عمارتوں میں قبلہ رخ نہ ہونے کی تاکید مشقت کی وجہ سے دی گئی ہے، جبکہ صحرا میں یہ مسئلہ نہیں۔” (شرح صحیح مسلم: 3/155)
شارحِ بخاری حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”جمہور علماء کا موقف یہ ہے کہ عمارت اور صحرا میں قبلہ رخ ہو کر پیشاب کرنے میں فرق ہے۔ امام مالک، شافعی، اور اسحاق بن راہویہ کا یہی موقف ہے، اور یہ قول زیادہ معتدل ہے کیونکہ اس میں تمام دلائل پر عمل ہوتا ہے۔” (فتح الباري شرح صحیح البخاري: 1/246)
تنبیہ نمبر 1:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:
ذُکِرَ عِنْدَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَوْمٌ یَّکْرَہُونَ أَنْ یَّسْتَقْبِلُوا بِفُرُوجِہِمُ الْقِبْلَۃَ، فَقَالَ : أُرَاہُمْ قَدْ فَعَلُوہَا، اسْتَقْبِلُوا بِمَقْعَدَتِي الْقِبْلَۃَ .
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا گیا کہ ایک قوم قبلہ رخ ہوکر پیشاب کرنا حرام سمجھتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ ایسے ہی کرتے ہوں گے، آپ قبلہ رخ پیٹھ پھیرا کریں۔”
(سنن ابن ماجۃ: 324، مسند الإمام أحمد: 6/184، مسند الطیالسي: 1541، شرح معاني الآثار للطحاوي: 4/234)
تبصرہ:
سند ضعیف ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
خَالِدُ بْنُ أبِي صَلْتٍ عَنْ عِرَاکٍ مُّرْسَلٌ .
”خالد بن ابو صلت کی عراک سے روایت مرسل ہوتی ہے۔”(التاریخ الکبیر: 3/155)
خالد بن ابو صلت راوی ”مجہول” ہے، سوائے امام ابن حبان رحمہ اللہ (الثقات: 6/252) کے کسی نے اس کی توثیق نہیں کی۔
حافظِ اندلس علامہ ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَأَمَّا حَدِیثُ عَائِشَۃَ فَہُوَ سَاقِطٌ….خَالِدِ بْنِ أَبِي الصَّلْتِ وَہُوَ مَجْہُولٌ لَّا یُدْرٰی مَنْ ہُوَ .
”سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی یہ حدیث ضعیف ہے…. خالد بن ابو صلت مجہول راوی ہے، اس کا کوئی اتہ پتہ نہیں!”
(المحلیٰ بالآثار: 1/261)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لَا یَکَادُ یُعْرَفُ .
”اس کی پہچان ممکن ہی نہیں۔”(میزان الإعتدال: 1/632)
حافظ ابن حجر نے اسے ”مقبول” (مجہول) کہا ہے۔(تقریب التھذیب: 1643)
یہ روایت ”منقطع” ہے کیونکہ عراک کا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے سماع ثابت نہیں ہے۔ امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ (علل ابن ابی حاتم، ص 162-163) نے اس روایت کو ”مرسل” قرار دیا ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا بھی یہی مؤقف ہے، وہ بھی عراک کا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے سماع کا انکار کرتے ہیں۔ جس روایت میں عراک نے سماع کی تصریح کی ہے، اس میں علی بن عاصم واسطی راوی ”ضعیف” ہے۔
سنن دارقطنی (1/60) میں ‘خالد الحذا عن رجل عن عراک’ کی سند ہے، جہاں خالد حذا اور عراک کے درمیان جو ”رجل” ہے، وہ خالد بن ابو صلت ہے۔ خالد نے عراک سے سماع کی تصریح نہیں کی۔ یہ ‘المزید فی متصل الاسانید’ کی قسم سے ہے، لہٰذا سند ”ضعیف” ہے۔
تنبیہ نمبر 2:
مروان اصفر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
رَأَیْتُ ابْنَ عُمَرَ أَنَاخَ رَاحِلَتَہ، مُستَقبِلَ الْقِبْلَۃِ، ثُمَّ جَلَسَ یَبُولُ إِلَیْہَا، فَقُلْتُ : یَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، أَلَیْسَ قَدْ نُہِيَ عَنْ ہٰذَا؟ قَالَ : بَلٰی، إِنَّمَا نُہِيَ عَنْ ذٰلِکَ فِي الْفَضَاءِ ، فَإِذَا کَانَ بَیْنَکَ وَبَیْنَ الْقِبْلَۃِ شَيْءٌ یَّسْتُرُکَ فَلَا بَأْسَ .
”میں نے سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا کہ انہوں نے اپنی اونٹنی قبلہ رخ بٹھائی اور اس کی طرف منہ کر کے پیشاب کرنے لگے۔ میں نے پوچھا: ابو عبد الرحمن! (عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی کنیت) قبلہ رخ پیشاب کرنا منع نہیں ہے؟ فرمایا: کیوں نہیں، لیکن یہ ممانعت کھلے میدان میں ہے، جب درمیان میں کوئی اوٹ ہو تو کوئی مضائقہ نہیں۔”
(سنن أبي داو،د: 11، السنن الکبریٰ للبیھقي: 1/92)
تبصرہ:
سند ضعیف ہے۔
حسن بن ذکوان ”مدلس” ہیں، اور سماع کی تصریح نہیں کی۔
اس حدیث کو امام ابن الجارود (32), امام ابن خزیمہ (60) اور امام دارقطنی (1/556) نے ”صحیح” قرار دیا ہے۔ امام حاکم رحمہ اللہ (1/256) نے اسے ”امام بخاری رحمہ اللہ کی شرط پر صحیح” قرار دیا ہے، اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔
علامہ حازمی رحمہ اللہ نے اسے ”حسن” قرار دیا ہے۔(الاعتبار في الناسخ والمنسوخ من الآثار، ص: 38)
الحاصل:
اگر سامنے دیوار یا پردہ حائل ہو تو قبلہ رخ پیشاب کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اکثر ائمہ سلف کا یہی مؤقف ہے، اور بعض روایات بھی اسی مؤقف کی تائید کرتی ہیں۔ واللہ اعلم!