قبر کے عذاب اور برزخ کا مفہوم
ماخوذ: فتاویٰ علمائے حدیث، جلد 09

سوال

ایک یہودیہ خاتون کے بارے میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کے مطابق، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگ اس یہودیہ پر رو رہے ہیں جبکہ اسے اس کی قبر میں عذاب دیا جا رہا ہے۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ عذاب قبر، زمینی قبر میں دفن ہونے سے پہلے ہی شروع ہو جاتا ہے۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں قبر سے مراد برزخی قبر ہے؟ اور سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کی روایت میں زانی مرد و عورتوں کو ایک تنور میں جمع کرکے عذاب دینے کا ذکر ہے، جبکہ ان کی قبریں دنیا میں مختلف مقامات پر ہوتی ہیں۔ اس تنور میں جمع ہونے کا کیا مفہوم ہے؟

جواب

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی بیان کردہ حدیث میں یہ ذکر ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک یہودیہ عورت کے قریب سے گزرے، اور اس کے گھر والے اس پر رو رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ لوگ اس پر رو رہے ہیں جبکہ اسے اس کی قبر میں عذاب دیا جا رہا ہے۔ یہ حدیث بخاری شریف کے "کتاب الجنائز” میں موجود ہے:

"قَولِ النَّبِیِّ ﷺ یُعَذَّبُ الْمَیِّتُ بِبَعْضِ بُکَآءِ اَھْلِه، عَلَیْه… حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ یُوْسُفَ قَالَ أَخْبَرَنَا مَالِك عَنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ اَبِیْ بَکْرٍ عَنْ أَبِیْه عَنْ عَمْرَة بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ اَنَّھَآ اَخْبَرَتْه اَنَّھََا سَمِعَتْ عَآئِشة زَوْجَ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْه وَسَلَّمَ قَالَتْ اِنَّمَا مَرَّ رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ عَلٰی یَھُودِیَّة یَّبْکِی عَلَیْھَآ أَھْلُھَا فَقَالَ: «اِنَّھُمْ لَیَبْکُوْنَ عَلَیْھَا وَاِنَّھَا لَتُعَذَّبُ فِیْ قَبْرِھَا»”
(بخاری شریف، کتاب الجنائز)

اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ قبر کا عذاب جسم کے زمین میں دفن ہونے سے قبل بھی شروع ہو سکتا ہے، اور اس قبر سے مراد برزخی قبر ہے، نہ کہ زمینی قبر۔ برزخ میں مرنے کے بعد کا عالم شروع ہوتا ہے اور اس میں انسان کی روح کو مختلف قسم کے عذاب یا آرام کا سامنا ہوتا ہے۔

سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کی روایت

حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کی ایک روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک خواب بیان کیا گیا ہے جس میں آپ نے دیکھا کہ زنا کار مرد و عورتیں ایک تنور نما گڑھے میں برہنہ حالت میں ہیں، اور انہیں آگ کے عذاب میں مبتلا کیا جا رہا ہے:

"قَالاَ انْطَلِقْ فَانْطَلَقْنَا اِلٰی نَقْبٍ مِّثْلِ التَّنُوْرِ اَعْلاَہُ ضَیِّقٌ وَّاَسْفَلُه وَاسِعٌ تَتَوقَّدُ تَحْتَه نَارٌ فَإِذَا اقْتَرَبَ ارْتَفَعُوْا حَتّٰی کَادُوْا یَخْرُجُوْنَ فَاِذَا خَمَدَتْ رَجَعُوْا فِیْھَا وَفِیْھَا رِجَالٌ وَّنِسَآء عُرَاة فَقُلْتُ مَا ھٰذَا”
(بخاری شریف، کتاب الجنائز)

اس روایت میں تنور کا ذکر ایک برزخی عذاب کے طور پر ہے، جو ان گناہگاروں کو مل رہا تھا۔ یہاں یہ بات واضح کرنی ضروری ہے کہ یہ خواب میں دیکھی جانے والی ایک منظر کشی ہے، اور اس کا مطلب یہ نہیں کہ دنیاوی قبریں ایک ہی جگہ ہوں گی یا ان سب کو ایک ہی جگہ جمع کیا جائے گا۔ بلکہ، یہ عذاب برزخی حالت میں ہو رہا ہے، جہاں روحوں کو ان کے اعمال کے مطابق سزا دی جاتی ہے۔ اس لئے اس حدیث کو ظاہری طور پر نہیں، بلکہ برزخی عذاب کے تناظر میں سمجھنا چاہئے۔

خلاصہ

قبر سے مراد دنیاوی قبر کے بجائے برزخ کی قبر ہے، جہاں موت کے بعد روح کو عذاب یا آرام کا سامنا ہوتا ہے۔ سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کی روایت میں بھی تنور میں جمع ہونے کا ذکر برزخی عالم میں روحوں کے عذاب کی منظر کشی کرتا ہے، نہ کہ دنیاوی قبروں کے بارے میں کوئی ظاہری حکم۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1