قبر پر میت کو دفن کے بعد تلقین کرنا کتاب و سنت سے ثابت؟
ماخوذ : فتاوی علمیہ، جلد 3، نمازِ جنازہ سے متعلق مسائل، صفحہ 139

کیا میت دفن کرنے کے بعد تلقین دینا ثابت ہے؟

سوال

ایک کتاب میں یہ بات درج ہے کہ جب میت کو دفن کرنے سے فارغ ہو جاؤ تو قبر پر کھڑے ہو کر درج ذیل امور انجام دیے جائیں:

اللہ تعالیٰ سے میت کی مغفرت کی دعا کی جائے۔

میت کے لیے ثابت قدمی کی دعا مانگی جائے۔

اس کے ساتھ درج ذیل آیات کی تلاوت قبر پر کرنے کی تلقین کی گئی ہے:

✿ سورۃ البقرۃ آیات 1 تا 5 – ایک مرتبہ

✿ سورۃ البقرۃ آیات 285 تا 286 – ایک مرتبہ

اس کے علاوہ یہ الفاظ بھی قبر پر کھڑے ہو کر کہنے کی ہدایت کی گئی ہے:

"يَا فُلَانُ ، قُلْ : لَا إلَهَ إلَّا اللَّهُ”
"يا فلانُ، قل: ربيَ اللهُ، ودينِيَ الإسلامُ، ونبيِّ محمدٌ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ”

کیا یہ تمام امور کتاب و سنت سے ثابت ہیں؟ تحقیق کے ساتھ جواب دیا جائے۔ (نعیم اقبال، اٹلی)

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس سوال میں ذکر کردہ تین مختلف امور کی تحقیق درج ذیل ہے:

1. میت کے لیے مغفرت اور ثابت قدمی کی دعا مانگنا

یہ عمل حدیثِ صحیح سے ثابت ہے۔

سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

"جب تم اپنے بھائی کو دفن کر چکو تو اس کے لیے اللہ سے مغفرت مانگو اور اس کے لیے ثابت قدمی کی دعا کرو۔”

(سنن ابی داود: 3221، سندہ حسن، صححہ الحاکم 1/37، ووافقہ الذہبی)

2. قبر پر سورۃ البقرہ کی ابتدائی اور اختتامی آیات کی تلاوت

✿ یہ عمل موقوف روایت سے منقول ہے، یعنی صحابہ سے منقول ہے، نبی ﷺ سے براہِ راست نہیں۔

السنن الکبریٰ للبیہقی (4/56-57) میں یہ روایت موجود ہے۔

✿ اس کی سند میں عبدالرحمان بن العلاء بن اللجلاج شامل ہے جو مجہول الحال راوی ہے، اس لیے یہ سند ضعیف ہے۔

ایک مرفوع روایت (نبی ﷺ تک منسوب) بھی اس مفہوم کی موجود ہے:

(شعب الایمان للبیہقی: 9294، المشکوٰۃ: 1717)

✿ لیکن اس کی سند میں ایوب بن نہیک اور یحییٰ بن عبداللہ البابلتی شامل ہیں، جنہیں محدثین نے مجروح قرار دیا ہے، لہذا یہ روایت سخت ضعیف ہے۔

3. "یافلان” والی تلقین قبر پر کہنا

یہ تلقین درج ذیل کتب میں مذکور ہے:

بلوغ المرام (حدیث 471) از سعید بن منصور

✿ اس روایت کی سند میں اشیاخ من اہل حمص شامل ہیں، جو تمام کے تمام مجہول ہیں۔
(بلوغ المرام مترجم، دارالسلام، جلد 1، صفحہ 423)

المعجم الکبیر للطبرانی (8/298، حدیث 7979)

✿ اس روایت کا بھی ایک ضعیف شاہد موجود ہے، لیکن اس میں بھی راویوں کی ایک جماعت مجہول ہے۔
(دیکھئے: مجمع الزوائد 2/324)

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا:

"وإسنادهُ صالحٌ ، وقد قواهُ الضياءُ في ‘أحكامهِ'”

(التلخیص الجیر 2/135-136، حدیث 796)

لیکن یہاں پر ایک راوی محمد بن ابراہیم بن العلاء الحمصی ہے جس کے بارے میں خود حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا:

"منکر الحدیث”

(تقریب التہذیب: 5698)

یعنی یہ راوی قابل اعتبار نہیں۔

خلاصہ

قبر پر دفن کے بعد مغفرت اور ثابت قدمی کی دعا کرنا صحیح احادیث سے ثابت ہے۔

سورۃ البقرۃ کی آیات کی تلاوت اور "یافلان” والی تلقین قبر پر کھڑے ہو کر کرنا ضعیف یا غیر ثابت روایات پر مبنی ہے۔

✿ اس لیے قبر پر کھڑے ہو کر کسی قسم کی تلقین کرنا کتاب و سنت سے ثابت نہیں ہے۔

✿ میت کو وفات سے پہلے تلقین دینا احادیث سے ثابت ہے، اس لیے اس پر عمل کرنا چاہیے شرعی حدود و قیود کے ساتھ۔

تاریخ تحریر: 19 رجب 1433ھ بمطابق 10 جون 2012ء

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے