قبر والی مسجد میں نماز کا شرعی حکم تفصیل سے
ماخوذ : فتاویٰ ارکان اسلام

کیا قبر والی مسجد میں نماز پڑھنا جائز ہے؟

الحمد للہ، والصلاة والسلام علی رسول اللہ، أما بعد!

ایسی مسجد جہاں قبر موجود ہو، اس کے بارے میں علماء نے دو الگ الگ صورتوں کا حکم بیان کیا ہے:

پہلی صورت:

*مسجد کو قبر پر تعمیر کیا گیا ہو*

◈ اگر قبر پہلے سے موجود تھی اور اس کے بعد مسجد بنائی گئی تو یہ عمل ناجائز ہے۔

◈ اس طرح کی مسجد کو چھوڑ دینا واجب ہے اور اس میں نماز ادا کرنا درست نہیں۔

◈ ایسی مسجد کو گرا دینا ضروری ہے۔

◈ اگر بنانے والا خود نہیں گراتا تو اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسے منہدم کرے۔

دوسری صورت:

*پہلے مسجد بنی ہو، پھر کسی کو دفن کر دیا گیا ہو*

اگر مسجد پہلے سے قائم تھی اور بعد میں کسی میت کو اس میں دفن کیا گیا تو:

◈ اس قبر کو وہاں سے نکال کر مسلمانوں کے عام قبرستان میں دفن کرنا واجب ہے۔

◈ اس صورت میں مسجد میں نماز جائز ہے بشرطیکہ قبر نمازی کے سامنے نہ ہو۔

◈ کیونکہ نبی کریم ﷺ نے قبروں کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔

نبی کریم ﷺ کی قبر اور مسجد نبوی کے متعلق وضاحت

◈ نبی کریم ﷺ کی وفات سے پہلے مسجد نبوی کی تعمیر مکمل ہو چکی تھی، یعنی مسجد قبر پر نہیں بنائی گئی۔

◈ آپ ﷺ کو مسجد میں دفن نہیں کیا گیا بلکہ اپنے گھر میں دفن کیا گیا، جو مسجد سے الگ تھا۔

بعد میں خلیفہ ولید بن عبدالملک نے 88 ہجری میں امیر مدینہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کو خط لکھا:

◈ مسجد نبوی کو وسعت دینے اور ازواج مطہرات کے حجروں کو شامل کرنے کا حکم دیا۔

حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے:

◈ اس پر فقہاء اور سرکردہ حضرات کو مشورے کے لیے جمع کیا۔

◈ سب نے کہا کہ انہیں ان کے حال پر چھوڑنا زیادہ باعث نصیحت ہے۔

حضرت سعید بن مسیب رحمہ اللہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے کو مسجد میں شامل کرنے کی مخالفت کی، اس ڈر سے کہ قبر کو سجدہ گاہ نہ بنا لیا جائے۔

◈ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے یہ سب کچھ ولید کو لکھ کر اطلاع دی، مگر ولید نے اپنے حکم پر عمل کرنے پر زور دیا۔

لہٰذا، یہ واضح ہے کہ:

نبی کریم ﷺ کی قبر کو مسجد میں شامل کرنے کا عمل بعد میں اور مجبوری کے تحت ہوا۔

نہ تو مسجد نبوی قبر پر تعمیر کی گئی، اور نہ نبی کریم ﷺ کو مسجد میں دفن کیا گیا۔

◈ اس لیے جو لوگ قبروں پر مسجدیں بناتے ہیں یا مسجدوں میں قبریں بناتے ہیں، ان کے لیے اس واقعے سے کوئی دلیل نہیں بنتی۔

نبی کریم ﷺ کی احادیث کی روشنی میں حکم

1.

((لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْیَہُودِ وَالنَّصَارٰی اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِیَائِہِمْ مَسَاجِدَ))

(صحیح البخاري، الصلاۃ باب: ۵۵، ح:۴۳۵ وصحیح مسلم، المساجد، باب النہی عن بناء المسجد علی القبور، ح:۵۳۱)

ترجمہ: ”یہود و نصاریٰ پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو کہ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مسجدیں بنا لیا۔“

یہ حدیث نبی ﷺ نے اپنی وفات کے وقت ارشاد فرمائی، یعنی آپ نے اپنی امت کو اس عمل سے سختی سے روکا ہے۔

2.

حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم ﷺ سے حبشہ کے ایک گرجا (کنیسہ) کا ذکر کیا جس میں تصویریں بنی ہوئی تھیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا:

((أُولٰٓئِکِ إِذَا مَاتَ فیْہُمُ الرَّجُلُ الصَّالِحُ او العبد الصالح بَنَوْا عَلَی قَبْرِہِ مَسْجِدًا ثُمَّ صَوَّرُوا فِیہِ تِلْکَ الصُّورَۃَ أُولٰٓئِکِ شِرَارُ الْخَلْقِ عِنْدَ اللّٰہِ))

(صحیح البخاري، الجنائز، باب بناء المسجد علی القبر، ح: ۱۳۴۱ وصحیح مسلم، المساجد، باب النہی عن بناء المسجد علی القبور، ح: ۵۲۸)

ترجمہ: ”یہ لوگ ایسے تھے کہ جب ان میں کوئی نیک شخص یا صالح بندہ وفات پا جاتا تو یہ اس کی قبر پر مسجد بنا دیتے، پھر اس میں تصویریں بناتے، ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بدترین مخلوق ہیں۔“

3.

((اِنَّ مِنْ شِرَارِ النَّاسِ مَنْ تُدْرِکُہمُ السَّاعَۃُ وَہُمْ اَحْیَائٌ، وَالذینْ یَتَّخِذونُ الْقُبُورَ مَسَاجِدَ))

(مسند احمد: ۱/ ۴۰۵، ۴۳۵)

ترجمہ: ”سب سے بدترین لوگ وہ ہوں گے جنہیں قیامت آ لے گی اور وہ زندہ ہوں گے، اور وہ ایسے ہوں گے کہ وہ قبروں کو مسجدیں بناتے ہوں گے۔“

نتیجہ:

◈ ایک مومن کے لیے جائز نہیں کہ وہ یہود و نصاریٰ کی راہ پر چلے۔

◈ نہ ہی کوئی مسلمان یہ پسند کر سکتا ہے کہ اسے اللہ کی نظر میں بدترین مخلوق شمار کیا جائے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے