قبر اور موت سے متعلق چالیس صحیح احادیث

تحریر: ابوحمزہ عبدالخالق صدیقی (کتاب کا پی ڈی ایف لنک)

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
إِنَّ الْحَمْدَ لِلَّهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ مَنْ يَهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُضْلِلْ فَلَا هَادِيَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ أَمَّا بَعْدُ:
بَاب مَعْنَى الْقَبْرِ

قبر کے مفہوم کا بیان

قَالَ اللهُ تَعَالَىٰ: ﴿‏ فَبَعَثَ اللَّهُ غُرَابًا يَبْحَثُ فِي الْأَرْضِ لِيُرِيَهُ كَيْفَ يُوَارِي سَوْءَةَ أَخِيهِ﴾ [المائدة: ۳۱)
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’ پھر اللہ تعالیٰ نے ایک کو بھیجا جس نے زمین کھودی تا کہ (قابیل کو ) دکھائے کہ وہ اپنے بھائی کی لاش کیسے چھپا سکتا ہے۔‘‘
قَوْلُ اللَّهِ عَزَّوَجَلَّ (فَأَقْبَرَهُ) [عبس: ۲۱] أَقْبَرْتُ الرَّجُلَ : إِذَا جَعَلْتَ لَهُ قَبْرًا وَ قَبْرتُهُ: دَفَتَتُهُ .
’’سورۃ عبس کی آیت ۲۱ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
(فَأَقْبَرَهُ) کے عرب لوگ کہتے ہیں ’’اقبرْتُ الرَّجُلَ ‘‘ یعنی میں نے آدمی کو دفن کیا۔ جب کوئی آدمی کہے کہ میں نے اس کے لیے قبر بنائی اور اسے قبر میں ڈالا تو اس کا مطلب ہے میں نے اسے دفن کیا ۔‘‘
صحیح بخاری، کتاب الجنائز، باب ما جاء في قبر النبيﷺ .
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَ مِنْ وَرَا بِهِمْ بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ ) [المومنون: ١٠٠]
اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” ان سب (مرنے والوں) کے پیچھے ایک پردہ حائل ہے اس دن تک کے لیے جب وہ (قبروں سے) اٹھائے جائیں گے۔‘‘
وضاحت:
مرنے کے بعد مٹی میں دفن ہو یا پانی میں غرق ہو یا درندے اسے کھا جائیں یا جلا کر اسے راکھ بنا دیا جائے، جہاں جہاں میت کا جسم یا جسم کے ذرات یا ذرہ ٹھہرے گا، وہی اس کی قبر کہلائے گی۔
بَابُ ذِكْرِ الْمَوْتِ مُسْتَحَب

بیان کہ موت کو یاد کرنا مستحب ہے

((عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ : أَكْثِرُوا ذِكْرَ هَادَمِ اللَّذَاتِ يَعْنِي الْمَوْتَ . ))سنن این ماجه، کتاب الزهد، باب ذكر الموت و الاستعداد له، رقم: ٤٢٥٨-
محدث البانی نے اسے ’’حسن صحیح‘‘ کہا ہے۔
’’حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں:
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لذتوں کو مٹانے والی چیز ، یعنی موت کو کثرت سے یاد کیا کرو۔‘‘
((عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ اسْتَحْبُوا مِنَ اللَّهِ حَقَّ الْحَيَاةِ. قُلْنَا: يَا نَبِيَّ اللَّهِ إِنَّا لَنَسْتَحْيِي وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، قَالَ: لَيْسَ ذَاكَ وَلَكِنِ الْاسْتِحْيَاء مِنَ اللَّهِ حَقَّ الحَياءِ أَنْ تَحْفَظَ الرَّأْسَ، وَمَا وَعَى، وَتَحْفَظَ البَطْنَ، وَمَا حَوَى، وَ تَتَذَكَّرَ الْمَوْتَ وَ البَلى، وَ مَنْ أَرَادَ الْآخِرَةَ تَرَكَ زِينَةَ الدُّنْيَا فَمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ فَقَدِ اسْتَحْي . يَعْنِي مِنَ الله حَقَّ الْحَياءِ . ))سنن ترمذی، ابواب صفة القيامة، باب في بيان ما يقتضيه الاستحيا من الله ، رقم ٢٤٥٨ –
محدث البانی نے اسے ’’حسن ‘‘ کیا ہے۔
’’حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
اللہ تعالٰی سے اس طرح حیا کرو جس طرح حیا کرنے کا حق ہے۔ ہم نے عرض کیا:
اے اللہ کے نبی! اللہ کا شکر ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ سے حیا تو کرتے ہیں۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
ایسے نہیں بلکہ اس طرح کہ جس طرح حیا کرنے کا حق ہے اور وہ یہ کہ تم حفاظت کرو سر کی اور جو کچھ سر میں ہے ( یعنی آنکھ، کان اور زبان وغیرہ کی) اور پھر پیٹ کی حفاظت کرو ( کہ اس میں کوئی حرام چیز نہ جائے ) اور ان چیزوں کی حفاظت کرو جو پیٹ کے ساتھ لگی ہوئی ہیں (یعنی شرم گاہ اور ہاتھ پاؤں وغیرہ) اور یاد کرو ( قبر میں ) ہڈیوں کے گل سڑ جانے کو اور جو شخص آخرت کی زندگی کا خواہش مند ہو اسے چاہیے کہ دنیا کی زیب و زینت چھوڑ دے۔ جس شخص نے یہ سارے کام کیے اس نے گویا اللہ تعالیٰ سے اس طرح حیا کی جس طرح واقعی حیا کرنے کا حق تھا۔‘‘
بَابُ تَمَنِّي الْمَوْتِ مَمنوع

بیان کہ موت کی تمنا کرنا منع ہے

((عَنْ أَبِى أَبِي عُبَيْدِ – اسْمُهُ سَعْدُ بْنُ عُبَيْدِ مَوْلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بنِ أَزْهَرٍ – أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ: لَا يَتَمَنَّيْنَّ أَحَدُكُمُ الْمَوْتَ إِمَّا – مُحْسِنَا فَلَعَلَّهُ أَنْ يَزْدَادَ خَيْرًا وَإِمَّا مُبِينًا فَلَعَلَّهُ أَنْ یستعتب۔))[صحيح بخاری، کتاب التمني، رقم الحديث: ٧٢٣٥.]
’’حضرت عبیدؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
کوئی شخص موت کی تمنا نہ کرے اگر کوئی نیک آدمی ہے تو اپنی نیکیوں میں اضافہ کرے گا اور اگر گناہگار ہے تو ممکن ہے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگ لے۔‘‘
((عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوَدِدْتُ أَنِّي أَقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ثُمَّ أَحْيَا ثُمَّ أقتل ثُمَّ أَحْيَا ثُمَّ أَقْتَلُ ثُمَّ أَحْيَا ثُمَّ أَقْتَلُ .))[صحیح بخاری، کتاب الجهاد، باب تمنى الشهادة، رقم الحديث: ٢٧٩٧.]
’’حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں، میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں پسند کرتا ہوں کہ اللہ کی راہ میں قتل کیا جاؤ پھر زندہ کیا جاؤ، پھر (اللہ کی راہ میں) قتل کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں، پھر (اللہ کی راہ میں) قتل کیا جاؤ پھر زندہ کیا جاؤں) پھر (اللہ کی راہ میں قتل کیا جاؤ پھر زندہ کیا جاؤں، پھر اللہ کی راہ میں قتل کیا جاؤ۔‘‘
بَابُ سَكَرَاتِ الْمَوْتِ

موت کی سختیوں کا بیان

قال الله تعالى: ﴿وَجَاءَتْ سَكْرَةُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ) [ق: ١٩]
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” اور موت کی سختی حق لے کر آ پہنچی۔‘‘
((عَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ : لَا تَمَنَّوُا الْمَوْتَ فَإِنَّ هَوْلَ الْمَطْلَعِ شَدِيدٌ وَإِنَّ مِنَ السَّعَادَةِ أَنْ يَطُولَ عُمُرُ الْعَبْدِ وَيَرْزُقُهُ اللهُ عَزَّوَجَلَّ الْآنَابَةَ . ))[الترغيب والترهيب لمحى الدين ديب، الجزء الرابع، رقم الحديث: ٤٩٣١.]
’’حضرت جابرؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
موت کی تمنا نہ کرو جان کنی کی تکلیف بڑی شدید ہے اور یہ نیک بختی کی علامت ہے کہ اللہ کسی بندے کی عمر لمبی کر دے اور اسے توبہ کی توفیق عطا فرما دے۔‘‘
((عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ مَاتَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم وَإِنَّهُ لَبَيْنَ حَافِتَنِي وَذَافِتَنِي فَلَا أَكْرَهُ شِدَّةَ الْمَوْتِ لَاحَدٍ أَبَدًا بَعْدَ النَّبِيِّ .)) [صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب مرض النبي ﷺ و وفاته، رقم الحديث: ٤٤٤٦.]
’’حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کی وفات اس حالت میں ہوئی کہ آپ ﷺ کا سر مبارک میرے سینے اور ٹھوڑی کے درمیان تھا۔ آپ ﷺ کی موت کی تکلیف دیکھنے کے بعد اب میں کسی کے لیے موت کی سختی کو برا نہیں سمجھتی۔
بَابُ مَكَارِمِ الْمُحْتَضَرِ

مرتے وقت مومن کے اعزازات کا بیان

قَالَ اللهُ تَعَالَى: (الَّذِينَ تَتَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ طَيِّبِينَ ۙ يَقُولُونَ سَلَامٌ عَلَيْكُمُ) (النحل: ٣٢)
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’ نیک اور متقی لوگوں کی روح فرشتے قبض کرنے آتے ہیں تو کہتے ہیں تم پر سلامتی ہو۔‘‘
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿تَحِيَّتُهُمْ يَوْمَ يَلْقَوْنَهُ سَلَامٌ) (الاحزاب: ٤٤)
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’ جس روز (اہل ایمان) اللہ سے ملیں گے ان کا استقبال سلام سے ہوگا۔‘‘

((عَنْ عُبَادَةَ ابْنِ الصَّامِتِ وَ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ: مَنْ أَحَبَّ لِقَاءَ اللَّهِ أَحَبَّ اللَّهُ لِقَاءَهُ، وَمَنْ كَرِهَ لِقَاءَ اللَّهِ كَرِهَ اللَّهُ لِقَاءَهُ. قالَتْ عَائِشَةُ أَوْ بَعْضُ أَزْوَاجِهِ إِنَّا لَنَكْرَهُ الْمَوْتَ. قَالَ: لَيْسَ ذَلِكَ وَلَكِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا حَضَرَهُ الْمَوْتُ بَيْرَ بِرِضْوَانِ اللَّهِ وَكَرَامَتِهِ فَلَيْسَ شَيْءٌ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا أَمَامَهُ فَأَحَبَّ لِقَاءَ اللَّهِ وَأَحَبُّ اللَّهُ لِقَاءَهُ، وَإِنَّ الْكَافِرَ إِذَا حُضِرَ بُشْرَ بِعَذَابِ اللهِ وَعُقُوبَتَهُ فَلَيْسَ شَيْءٌ أَكْرَهُ إِلَيْهِ مِمَّا أَمَامَهُ فَكَرِهَ لِقَاءَ اللَّهِ وَكَرِهَ اللهُ لِقَاءَه . )) [صحیح بخاری، کتاب الرقاق، باب من احب لقاء الله احب الله لقاء ہ، رقم الحديث: ٦٥٠٧.]
’’حضرت عبادہ بن صامتؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
جو شخص اللہ سے ملاقات کرنا پسند کرتا ہے اللہ بھی اس سے ملاقات کرنا پسند کرتا ہے اور جو شخص اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرنا پسند نہیں کرتا، اللہ تعالٰی بھی اس سے ملنا پسند نہیں فرماتا۔ حضرت عائشہ ؓ یا آپ ﷺ کی کسی دوسری زوجہ محترمہ نے کہا:
موت تو ہمیں بھی نا پسند ہے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
اللہ تعالیٰ کی ملاقات سے مراد موت نہیں بلکہ مومن کو جب موت آتی ہے تو اسے اللہ کی رضامندی اور عزت افزائی کی خوشخبری دی جاتی ہے اس وقت مومن کو آئندہ ملنے والی نعمتوں سے زیادہ کوئی چیز محبوب نہیں ہوتی اور وہ ( جلدی جلدی) اللہ سے ملنا چاہتا ہے اور اللہ بھی اس سے ملنے کو پسند فرماتا ہے۔ جب کافر کو موت آتی ہے تو اسے اللہ کے عذاب اور اس کی سزا کی ’’بشارت‘‘ دی جاتی ہے تب اسے آئندہ پیش آنے والے حالات سے زیادہ نفرت کسی چیز سے نہیں ہوتی لہٰذا وہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کو نا پسند کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ بھی اس سے ملنا پسند نہیں فرماتا۔‘‘
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ صلى الله عليه وسلم قَالَ: إِذَا خَرَجَتْ رُوحُ الْمُؤْمِنِ تَلَقَّاهَا ممَلَكَانَ يُصْعِدَانِهَا قَالَ حَمَّادٌ: فَذَكَرَ مِنْ طِيبٍ رِيحَهَا وَذَكَرَ الْمِسْكَ، قَالَ: وَيَقُولُ أَهْلُ السَّمَاءِ: رُوح طَيِّبَةٌ جَاءَتْ مِنْ قِبل الْأَرْضِ صَلَّى اللهُ وَ عَلَيْكَ وَعَلَى جَسَدِ كُنْتِ تَعْمُرِينَهُ فَيُنطَلَقُ بِهِ إِلى رَبِّهِ عَزَّوَجَلَّ ثُمَّ يَقُولُ: انْطَلِقُوا بِهِ إِلَى آخِرِ الْأَجَلِ، قَالَ: وَإِنَّ الْكَافِرَ إِذَا خَرَجَتْ رُوحُهُ قَالَ حَمَّادٌ وَ ذَكَرَ مِنْ نَتْنِهَا وَذَكَرَ لَعْنا وَيَقُولُ أَهْلُ السَّمَاءِ رُوح خَبِيثَةٌ جَاءَتْ مِنْ قِبَلِ الْأَرْضِ قَالَ: فَيُقَالُ: انْطَلِقُوا بِهِ إِلَى آخِرِ الْأَجَلِ. قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ فَرَدَّ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم رِيْطَةٌ كَانَتْ عَلَيْهِ عَلَى أَنْفِهِ هكذا . )) [صحيح مسلم، كتاب الجنة وصفته، باب عرض مقعد الميت من الجنة و اثبات ……‘ رقم الحديث: ۷۲۲۱.]
’’حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں جب مومن کی روح نکلتی ہے تو دو فرشتے اسے لے کر آسمان کی طرف جاتے ہیں (حدیث کے راوی) حماد کہتے ہیں حضرت ابو ہریرہؓ نے روح کی خوشبو اور مشک کا ذکر کیا اور کہا کہ آسمان والے فرشتے (اس روح کی خوشبو پا کر ) کہتے ہیں کوئی پاک روح ہے جو زمین کی طرف سے آئی ہے، اللہ تجھ پر رحمت کرے اور اس جسم پر بھی جسے تو نے آباد کر رکھا تھا۔ پھر فرشتے اپنے رب کے حضور اس روح کو لے جاتے ہیں، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
اسے قیامت قائم ہونے تک (اس کی معین جگہ یعنی علیین میں) پہنچا دو۔ حدیث کے راوی نے کافر کی روح کے نکلنے کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ نے روح کی بدبو اور اس پر (فرشتوں کی) لعنت کا ذکر کیا۔ آسمان کے فرشتے کہتے ہیں کوئی ناپاک روح ہے جو زمین کی طرف سے آ رہی ہے پھر (اللہ تعالیٰ کی طرف سے) حکم ہوتا ہے اسے قیامت قائم ہونے تک (اس کی معین جگہ یعنی علیین میں) لے جاؤ۔ حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں جب رسول اکرم ﷺ نے کافر کی روح کی بدبو کا ذکر فرمایا تو (نفرت سے) اپنی چادر کا دامن اس طرح اپنی ناک پر رکھ لیا۔ (اور پھر اپنی چادر ناک پر رکھ کر دکھائی)۔‘‘
بَابُ عِقَابَاتِ الْمُحْتَضَرِ

مرتے وقت کافر کی سزاؤں کا بیان

قَالَ اللهُ تَعَالَى: الَّذِينَ تَتَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ ظَالِمِي أَنفُسِهِمْ ۖ فَأَلْقَوُا السَّلَمَ مَا كُنَّا نَعْمَلُ مِن سُوءٍ ۚ بَلَىٰ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ‎﴿٢٨﴾‏ فَادْخُلُوا أَبْوَابَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا ۖ فَلَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِينَ ‎﴿٢٩﴾ [النحل: ۲۸-۲۹]
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’فرشتے جب ان کی جان قبض کرنے لگتے ہیں اس وقت وہ جھک جاتے ہیں کہ ہم برائی نہیں کرتے تھے کیوں نہیں؟ اللہ تعالیٰ خوب جانے والا ہے جو کچھ تم کرتے تھے۔ جہنم کے دروازوں سے ہمیشہ کے لیے داخل ہو جاؤ جو متکبرین کے لیے بہت بری جگہ ہے۔‘‘
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَلَوْ تَرَىٰ إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا ۙ الْمَلَائِكَةُ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبَارَهُمْ وَذُوقُوا عَذَابَ الْحَرِيقِ) [الانفال: ٥٠]
اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’کاش تم وہ منظر دیکھ سکو جب فرشتے کافروں کی روح قبض کر رہے ہوتے ہیں اور (ساتھ ساتھ ) ان کے چہروں اور پیٹھوں پر ضربیں لگا رہے ہوتے ہیں اور کہتے ہیں اب جلنے کے عذاب کا مزہ چکھو۔“
((عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم فِي جَنَازَةٍ مِنَ الْأَنْصَارِ ، فَانْتَهَيْنَا إِلَى الْقَبْرِ ، وَلَمَّا يُلْحَدْ بَعْدُ، فَجَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ وَجَلَسْنَا حَوْلَهُ كَأَنَّمَا عَلَى رُهُ وَسِنَا الطَّيْرُ، فِي يَدِهِ عُود يَنكُتُ بِهِ فِي الْأَرْضِ فَرَفَعَ رَأْسَهُ فَقَالَ: اسْتَعِيدُوا بِاللَّهِ مِنْ عَذَابِ القَبْرِ ، مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا . ثُمَّ قَالَ: وَإِنَّ الْعَيْدَ الْكَافِرَ إِذَا كَانَ فِي انْقِطَاعِ مِنَ الدُّنْيَا وَإِقْبَالِ مِنَ الْآخِرَةَ نَزَلَ إِلَيْهِ مِنَ السَّمَاءِ مَلَائِكَةُ سُودُ الْوُجُوهِ مَعَهُمُ الْمُسْوحُ فَيَجْلِسُونَ مِنْهُ مَدَّ الْبَصَرِ ، ثُمَّ يُجِيهُ مَلَكُ الْمَوْتِ حَتَّى يَجْلِسَ عِنْدَ رَأْسِهِ فَيَقُولُ: أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْخَبِيثَةُ، أَخْرُجِي إِلَى سَخَطٍ مِنَ اللَّهِ وَغَضَبٍ، قَالَ فَتَفَرَّقَ فِي جَسَدِهِ فَبَتَزِعُهَا كَمَا يُتَزَعُ السقودُ مِنَ الصُّوفِ المَبْلُوْلِ، فَيَأْخُذْهَا، فَإِذَا أَخَذَهَا لَمْ يَدَعُوهَا فِي يَدِهِ طَرْفَةَ عَيْنٍ حَتَّى يَجْعَلُوهَا فِي تِلْكِ الْمُسُوحِ وَيَخْرُجُ مِنْهَا كَانتن ربح حِيقَةٍ وُجِدَتْ عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ فَيَصْعَدُونَ بِهَا فَلَا يَمُرُونَ بِهَا عَلَى مَلَا مِنَ الْمَلَائِكَةِ إِلَّا قَالُوا: مَا هَذِهِ الرِّيحُ الْخَبِيثَةُ فَيَقُولُونَ: فَلَانُ ابْنُ فُلَانِ، بِأَقْبَحَ أَسْمَائِهِ الَّتِي كَانَ يُسمى بِهَا فِي الدُّنْيَا، حَتَّى يُنتَهَى بِهَا إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا، فَيُسْتَفْتَحُ لَهُ فَلا يُفْتَحُ لَهُ، ثُمَّ قَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ : ولا تفتح لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَ لَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى يَلِجُ الْجَمَلُ في سيم الخياط ) (الاعراف: ٤٠)
فَيَقُولُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: اكتبوا كِتَابَهُ فِي سِجِينَ فِي الْأَرْضِ السُّفْلَى، فَتُطْرَحُ رُوحُهُ طَرْحًا، ثُمَّ قَرَأَ (وَمَن يُشْرِكْ بِاللهِ فَكَانَمَا خَزَ مِنَ السَّمَاءِ فَتَخْطَفُهُ القَيْرُ او تهوى يو الريح في مكان سحيق ) [الحج: ٣١] .)) [الترغيب و الترهيب لمحى الدين، الجزء الرابع، رقم الحديث: ٥٢٢١.]
’’حضرت براء بن عازبؓ سے روایت ہے کہ ہم ایک انصاری (صحابی) کے جنازے کے لیے رسول اکرمﷺ کے ساتھ ( تدفین کے لیے) نکلے، جب ہم قبرستان پہنچے تو قبر ابھی تیار نہیں ہوئی تھی۔ چنانچہ رسول اکرم ﷺ بیٹھ گئے اور ہم بھی آپ ﷺ کے گرد (اس قدر خاموشی سے ) بیٹھ گئے گویا ہمارے سروں پر پرندے بیٹھے ہوئے ہیں۔ آپ ﷺ کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی جس سے آپ ﷺ زمین کرید رہے تھے۔ آپ ﷺ نے سر مبارک اوپر اٹھایا اور فرمایا:
عذاب قبر سے اللہ کی پناہ طلب کرو ۔ آپ ﷺ نے یہ بات دو یا تین مرتبہ ارشاد فرمائی۔ پھر فرمایا:
کافر آدمی جب دنیا سے کوچ کرنے لگتا ہے اور آخرت کی طرف روانہ ہوتا ہے تو اس کی طرف سیاہ چہرے والے فرشتے نازل ہوتے ہیں ان کے پاس ٹاٹ (کے کفن ) ہوتے ہیں اور وہ اس سے حد نگاہ کے فاصلہ پر بیٹھ جاتے ہیں پھر ملک الموت (حضرت عزرائیل ) آتا ہے اور اس کے سر کے پاس بیٹھ جاتا ہے اور کہتا ہے اے خبیث روح نکل (اور چل ) اللہ کے غصے اور غضب کی طرف، روح جسم کے اندر جاتی ہے اور فرشتے اسے اس طرح باہر کھینچتے ہیں جیسے کانٹے دار لوہے کی سیخ گیلی اون سے باہر نکالی جاتی ہے۔ فرشتہ اس کی روح نکال لیتا ہے تو دوسرے فرشتے لمحہ بھر کے لیے بھی اسے ملک الموت کے ہاتھ میں نہیں رہنے دیتے بلکہ اسے ٹاٹ (کے کفن ) میں لپیٹ لیتے ہیں۔ روئے زمین پر کسی مردار سے اٹھنے والی بدترین سڑاند جیسی بدبو اس روح سے آ رہی ہوتی ہے۔ فرشتے اسے لے کر اوپر (آسمان کی طرف) جاتے ہیں (راستے میں ) جہاں کہیں ان کا گزر مقرب فرشتوں پر ہوتا ہے تو وہ کہتے ہیں یہ کس خبیث (روح) کی بدبو ہے۔ جواب میں فرشتے کہتے ہیں یہ فلاں بن فلاں کی روح ہے۔ ایسا بدترین نام لیتے ہیں جو دنیا میں لیا جاتا تھا، یہاں تک کہ فرشتے اسے لے کر آسمان دنیا تک پہنچ جاتے ہیں۔ فرشتے آسمان کا دروازہ کھولنے کے لیے درخواست کرتے ہیں لیکن دروازہ نہیں کھولا جاتا۔ پھر رسول اکرم ﷺ نے یہ آیت پڑھی: ’’ ( کافروں کے لیے ) آسمان کے دروازے نہیں کھولے جاتے نہ ہی وہ جنت میں داخل ہوں گے حتی کہ اونٹ سوئی کے نا کے سے گزر جائے ۔‘‘
(الاعراف: ۴۰)
پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہوتا ہے سب سے نچلی زمین میں موجود سجین (جیل ) میں اس کا اندراج کر لو اور کافر کی روح بری طرح زمین پر پٹخ دی جاتی ہے۔ اس کے بعد رسول ﷺ نے قرآن مجید کی یہ آیت تلاوت فرمائی:
جس نے اللہ سے شرک کیا گویا وہ آسمان سے گر پڑا، اب اسے پرندے اچک لیں یا ہوا اسے کسی دور دراز مقام پر پھینک دے۔‘‘
(الج ۳۱)
بَابُ كَلَامِ الْمَيِّتِ وَسِمَاعِهِ

میت کے کلام کرنے اور سننے کا بیان

((عَنْ أَبِي سَعِيدِ دَ الْخُدْرِي يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ : إِذَا وُضِعَتِ الْجَنَازَةُ فَاحْتَمَلَهَا الرِّجَالُ عَلَى أَعْنَاقِهِمْ فَإِنْ كَانَتْ صَالِحَةٌ قَالَتْ قَدِمُونِي قَدِمُونِي ، وَإِنْ كَانَتْ غَيْرُ صَالِحَةِ قَالَ يَا وَيْلَهَا أَيْنَ يَذْهَبُونَ بِهَا؟ يَسْمَعُ صَوْتَهَا كُلَّ شَيْءٍ إِلَّا الْإِنْسَانُ وَلَوْ سَمِعَهَا الإِنْسَانُ لَصَعِقَ .))[صحیح بخاری، کتاب الجنائز، باب كلام الميت على الجنازة، رقم الحديث: ١٣٨٠.]
’’حضرت ابو سعید خدریؓ کہتے ہیں رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
جب جنازہ تیار ہوتا ہے اور لوگ اسے اپنے کندھوں پر اٹھا لیتے ہیں تو نیک آدمی کہتا ہے مجھے جلدی لے چلو مجھے جلدی لے چلو اگر نیک نہ ہو تو کہتا ہے ہائے ہلاکت! مجھے کہاں لے جا رہے ہو میت کی آواز انسانوں ( اور جنوں) کے علاوہ ساری مخلوق سنتی ہے اگر انسان سن لے تو بے ہوش ہو جائے۔‘‘
(( عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ : إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا وُضِعَ فِي قَبْرِهِ وَ تَوَلَّى عَنْهُ أَصْحَابُهُ أَنَّهُ لَيَسْمَعُ خَفْقَ نِعَالِهِمْ إِذَا انْصَرَفُوا . ))صحیح مسلم، كتاب الجنة وصفة باب عرض مقعد الميت من الجنة والنار عليه و اثبات عذاب القبر، رقم: ۷۲۱۷.
’’ حضرت انس بن مالکؓ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
جب بندہ اپنی قبر میں دفن کیا جاتا ہے اور اس کے ساتھ واپس پلٹتے ہیں تو میت اپنے ساتھیوں کے جوتوں کی آواز سنتی ہے۔‘‘
بَابُ نَعِيمِ الْقَبْرِ حَقٌّ

بیان کہ قبر کی نعمتیں حق ہیں

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿ الَّذِينَ تَتَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ طَيِّبِينَ ۙ يَقُولُونَ سَلَامٌ عَلَيْكُمُ ادْخُلُوا الْجَنَّةَ بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ﴾ [النحل: ٣٢)
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’ نیک اور پاک لوگوں کی روح قبض کرنے کے لیے جب فرشتے آتے ہیں تو ( پہلے ) السلام علیکم کہتے ہیں (اور پھر کہتے ہیں ) داخل ہو جاؤ جنت میں ان اعمال کے بدلے جو تم کرتے رہے۔‘‘
((عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ إِنَّ أَحَدَكُمْ إِذَا مَاتَ عُرِضَ عَلَيْهِ مَقْعَدُهُ بِالْغَدَاةِ وَ الْعَشِيِّ إِنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ فمِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَ إِنْ كَانَ مِنْ أهْل النَّارِ فَمِنْ أَهْلِ النَّارِ . يُقَال هذَا مَقْعَدُكَ حَتَّى يَبْعَثَكَ اللهُ إِلَيْهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ .))صحيح مسلم، كتاب الجنة وصفة، باب عرض مقعد الميت من الجنة والنار عليه و اثبات عذاب القبر، رقم: ۷۲۱۱.
’’حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
تم میں سے جب کوئی مرتا ہے تو اسے صبح و شام اس کا ٹھکانہ دکھایا جاتا ہے اگر وہ جنتی ہے تو اسے جنتیوں والے محلات دکھائے جاتے ہیں اور اگر جہنمی ہے تو جہنمیوں والا ٹھکانہ دکھایا جاتا ہے اور اسے بتایا جاتا ہے یہ ہے تیری رہائش گاہ اللہ تعالیٰ قیامت کے روز تجھے یہاں بھیجے گا۔‘‘
بَابٌ عَذَابِ الْقَبْرِ حَقٌّ

عذاب قبر کے حق ہونے کا بیان

قَالَ اللهُ تَعَالَىٰ: ﴿وَحَاقَ بِالِ فِرْعَوْنَ سُوءُ الْعَذَابِ النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوا وَ عَشِيًّا وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ )
(المومن: ٤٥-٤٦]

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’آل فرعون بدترین عذاب کے پھیر میں آگئے جہنم کی آگ کے سامنے وہ صبح و شام پیش کیے جاتے ہیں اور جب قیامت کی گھڑی آئے گی تو حکم ہو گا کہ آل فرعون کو شدید ترین عذاب میں داخل کرو۔‘‘
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿ وَلَوْ تَرَىٰ إِذِ الظَّالِمُونَ فِي غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَالْمَلَائِكَةُ بَاسِطُو أَيْدِيهِمْ أَخْرِجُوا أَنفُسَكُمُ ۖ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ بِمَا كُنتُمْ تَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ غَيْرَ الْحَقِّ وَكُنتُمْ عَنْ آيَاتِهِ تَسْتَكْبِرُونَ) [الانعام: ٩٣]
اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’کاش ! تم ظالموں کو اس حالت میں دیکھو جب وہ جان کنی کی تکلیف میں مبتلا ہوتے ہیں۔ فرشتے ہاتھ بڑھا بڑھا کر کہہ رہے ہوتے ہیں لاؤ نکالو اپنی جانیں آج تمہیں ان باتوں کی پاداش میں رسوا کن عذاب دیا جائے گا جو تم ناحق اللہ تعالیٰ کے بارے میں کہا کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی آیات کے مقابلے میں تکبر کیا کرتے تھے۔‘‘
وَقَالَ اللهُ تَعَالَىٰ: الَّذِينَ تَتَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ ظَالِمِي أَنفُسِهِمْ ۖ فَأَلْقَوُا السَّلَمَ مَا كُنَّا نَعْمَلُ مِن سُوءٍ ۚ بَلَىٰ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ‎﴿٢٨﴾‏ فَادْخُلُوا أَبْوَابَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا ۖ فَلَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِينَ ‎﴿٢٩﴾) [النحل: ٢٨-٢٩]
اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے کا فرجب (موت کے وقت) فرشتوں کے ہاتھوں گرفتار ہوتے ہیں تو فوراً (سرکشی سے) باز آ جاتے ہیں اور کہتے ہیں:
ہم تو کوئی برا کام نہیں کر رہے تھے۔ فرشتے جواب دیتے ہیں:
کیسے نہیں کر رہے تھے؟ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے خوب واقف ہے اب جہنم کے دروازوں میں داخل ہو جاؤ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے، جہنم یقیناً بہت ہی برا ٹھکانہ ہے تکبر کرنے والوں کے لیے۔‘‘
((عَنْ عَائِشَةَ وَ أَنَّ يَهُودِيَّةٌ دَخَلَتْ عَلَيْهَا فَذَكَرَتْ عَذَابَ الْقَبْرِ فَقَالَتْ لَهَا: أَعَادَكِ اللَّهُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ ، فَسَالَتْ عَائِشَةُ رَسُولَ اللَّهِ عَنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، فَقَالَ: نَعَمْ ، عَذَابُ الْقَبْرِ حَقٌّ ، قَالَتْ عَائِشَةُ : فَمَا رَأَيْتُ رَسُوْلَ اللهِ صلى الله عليه وسلم بَعْدُ صَلَّى صَلاةَ إِلَّا تَعَوَّذَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ .))صحيح بخاری، کتاب الجنائز، باب ما جاء في عذاب القبر، رقم الحدیث: ۱۳۷۲.
’’حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ ایک یہودی عورت ان کے پاس آئی اور عذاب قبر کا ذکر کیا اور حضرت عائشہؓ سے کہنے لگی:
اللہ تجھے عذاب قبر سے بچائے۔ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں میں نے رسول اکرم ﷺ سے عذاب قبر کے بارے میں سوال کیا تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
ہاں، عذاب قبر حق ہے۔ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں اس کے بعد میں نے نبی اکرم ﷺ کو کوئی ایسی نماز پڑھتے نہیں دیکھا جس میں آپ نے عذاب قبر سے پناہ نہ مانگی ہو۔‘‘
وَ عَنْهَاؓ قَالَتْ: دَخَلَ عَلَى رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم وَ عِنْدِي امْرَأَةٌ مِنَ الْيَهُودِ، وَهِيَ تَقُولُ: إِنَّكُمْ تُفْتَتُونَ فِي القَبُورِ، فَارْتَاعَ رَسُولُ اللهِ وَقَالَ: إِنَّمَا تُفْتَنُ يَهُودُ. وَقَالَتْ عَائِشَةُ : فَلَبِثْنَا لَيَالِي، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ : إِنَّهُ أَوْحِيَ إِلَى أَنَّكُمْ تُفْتَتُونَ فِي الْقُبُورِ. قَالَتْ عَائِشَةُ فَسَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ بعْدُ يَسْتَعِيدُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ . )) سنن نسائی، کتاب الجنائز، باب التعوذ من عذاب القبر، رقم: ٢٠٦٧ – محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کیا ہے۔
’’ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں رسول اکرم ﷺ میرے ہاں تشریف لائے اس وقت میرے پاس ایک یہودی عورت بیٹھی ہوئی تھی اور کہہ رہی تھی:
تم لوگ قبروں میں آزمائے جاؤ گے۔ (یعنی عذاب دیئے جاؤ گے ) رسول اکرم ﷺ ( نے یہ بات سنی اور) گھبرا گئے فرمایا:
بے شک یہودی عذاب دیئے جائیں گے۔ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں اس کے بعد ہم نے کئی راتیں (وحی کا ) انتظار کیا پھر (ایک روز ) رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
میری طرف وحی کی گئی ہے کہ تم لوگ قبروں میں آزمائے جاؤ گے۔ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں اس کے بعد میں نے آپ ﷺ کو ہمیشہ عذاب قبر سے پناہ مانگتے سنا ہے۔‘‘
((عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ: إِنَّ الْمَوْتَى لَيُعَذِّبُونَ فِي قُبُورِهِمْ حَتَّى إِنَّ البَهَائِمَ لَتَسْمَعُ أَصْوَاتَهُمْ .)) الترغيب والترهيب‘ لمحى الدين ديب، الجزء الرابع، رقم الحديث:
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’مردے ( کافر یا مشرک) اپنی قبروں میں عذاب دیئے جاتے ہیں اور ان (کے چیخنے چلانے ) کی آوازیں سارے چوپائے سنتے ہیں۔‘‘
بَابٌ شِدَّةِ عَذَابِ الْقَبْرِ

عذاب قبر کی شدت کا بیان

((عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم كَانَ يَسْتَعِيدُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَمِنْ فِتْنَةِ الدَّجَالِ وَقَالَ: إِنَّكُمْ تُفْتِنُونَ فِي قُبُورِكُمْ .)) سنن نسائی، کتاب الجنائز، باب التعوذ من عذاب القبر، رقم: ٢٠٦٥ – محدث البانی نے اسے ’’صحیح الاسناد‘‘ کیا ہے۔
’’حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ عذاب قبر اور فتنہ مسیح دجال سے پناہ مانگا کرتے تھے اور فرماتے:
تم لوگوں قبروں میں آزمائے جاؤ گے۔“
((عَنْ أَنَسِ وَ أَنَّ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ: لَوْلَا أَنْ لَا تَدَافَنُوا لَدَعَوْتُ الله أنْ يُسْمِعَكُمْ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ . )) صحيح مسلم، كتاب الجنة وصفة نعيمها، باب عرض مقعد الميت من الجنة و النار عليه ……..‘ رقم: ٧٢١٤.
’’حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
اگر ( مجھے یہ خدشہ نہ ہوتا) تم (اپنے مردے) دفن کرنا چھوڑ دو گے تو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا کہ وہ تمہیں عذاب قبر (کی آوازیں) سنوا دے۔‘‘
باب: تُوجِبُ الْكَبَائِرُ عَذَابَ الْقَبْرِ

بیان کہ کبیرہ گناہوں پر عذاب قبر ہوتا ہے

((عَنِ ابْنِ عَبَّاسِ مَرَّ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم عَلَى قَبْرَيْنِ فَقَالَ: إِنَّهُمَا لَيُعَذِّبَانِ وَمَا يُعَذِّبَانِ فِي كَبِيرٍ ، ثُمَّ قَالَ: بَلَى إِمَّا أَحَدُهُمَا فَكَانَ يَسْعَى بِالنَّمِيمَةِ وَأَمَّا الْآخَرُ فَكَانَ لَا يَسْتَتِرُ مِنْ بَوْلِهِ . )) صحیح بخاری، کتاب الجنائز، باب عذاب القبر من الغيبة والبول، رقم: ۱۳۷۸.
’’حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ دو قبروں سے گزرے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
ان دونوں کو ( قبروں میں ) عذاب ہو رہا ہے اور کسی بڑی بات پر نہیں۔ پھر فرمایا:
ان میں سے ایک چغلی کھاتا تھا اور دوسرا اپنے پیشاب سے احتیاط نہیں کرتا تھا۔‘‘
باب: مَلَكًا القبرِ مُنكر ونكير

قبر کے دوفرشتوں منکر اور نکیر کا بیان

((عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ : إِذَا قُبِرَ الْمَيِّتُ أَوْ قَالَ أَحَدُكُمْ آتَاهُ مَلَكَان أَسْوَدَانِ أَزْرُقَانَ يُقَالُ: لِأَحَدِهِمَا الْمُنْكَرُ وَالْآخَرُ النَّكِيْرُ فَيَقُولَانِ: مَا كُنتَ تَقُولُ فِي هَذَا الرَّجُل؟))سنن ترمذی، ابواب الجنائز، باب ما جاء عذاب القبر، رقم: ۱۰۷۱- محدث البانی نے اسے ’’حسن‘‘ کیا ہے۔
’’حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
جب میت دفنائی جاتی ہے (یا آپ ﷺ نے فرمایا تم میں سے کسی ایک کی میت دفنائی جاتی ہے ) تو اس کے پاس دو سیاہ رنگ کے، نیلی آنکھوں والے فرشتے آتے ہیں ان میں سے ایک کو ’’منکر ‘‘ اور دوسرے کو ’’نکیر ‘‘ کہا جاتا ہے، وہ دونوں میت سے پوچھتے ہیں:
تم اس شخص (یعنی حضرت محمد ﷺ) کے بارے میں کیا کہتے تھے؟‘‘
بابُ كَيْفِيَّةِ الْمَيِّتِ فِي الْقَبْرِ عِنْدَ السُّوَّالِ

قبر میں سوال و جواب کے وقت میت کی کیفیت کا بیان

((عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ذَكَرَ فَتَّانَ الْقُبُورِ فَقَالَ عُمَرُ أَتْرَهُ عَلَيْنَا عُقُولَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ! فَقَالَ رَسُولُ اللهِ : نَعَمْ كَهَيْتِكُمُ الْيَوْمَ. فَقَالَ عُمَرُ: بِغَيْهِ الْحَجَرُ .))الترغيب والترهيب لمحى الدين ديب، الجزء الرابع، رقم الحديث: ٥٢١٧.
’’ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قبر کے فرشتوں کا ذکر فرمایا تو حضرت عمرؓ نے عرض کیا:
یا رسول اللہ ! کیا ہمیں ہماری یہ سمجھ بوجھ لوٹا دی جائے گی؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
بالکل! آج جیسی ہی سوجھ بوجھ (قبر میں ) دی جائے گی۔ حضرت عمرؓ نے کہا:
فرشتے کے منہ میں پتھر ( یعنی میں اس کو خاموش کرا دوں گا)۔‘‘

بَابُ الْوَاءِ النِّعَمِ فِي الْقَبْرِ

قبر میں نعمتوں کی اقسام کا بیان

قَالَ اللهُ تَعَالَىٰ: ﴿إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّاتٍ وَنَعِيمٍ ) [الطور: ۱۷]

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’بے شک اللہ سے ڈرنے والے لوگ جنتوں اور نعمتوں میں ہوں گے۔‘‘

((عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ: إِنَّ الْمَيْتَ إِذَا وُضِعَ فِي قَبْرِهِ إِنَّهُ يَسْمَعُ خَفْقَ نِعَالِهِمْ حِيْنَ يُوَلُّونَ مُدْبِرِينَ فَإِنْ كَانَ مُؤْمِنًا يُقَالُ لَهُ إِجْلِسُ فَيَجْلِسُ قَدْ مُثلَتْ لَهُ الشَّمْسُ ، وَقَدْ أذنيتْ لِلْغُرُوبِ، فَيُقَالُ لَهُ أَرَأَيْتَكَ هَذَا الَّذِي كَانَ قَبْلَكُمْ مَّا تَقُولُ فِيهِ وَمَا ذَا تَشْهَدُ عَلَيْهِ؟ فَيَقُولُ: دَعُونِي حَتَّى أَصَلَّى فَيَقُولُونَ: إِنَّكَ سَتَفْعَلُ، أَخْبِرْنَا عَمَّا نَسْأَلُكَ عَنْهُ، أَرَيْنَكَ هَذَا الرَّجُلِ الَّذِي كَانَ قَبْلَكُمْ مَّا ذَا تَقُولُ فِيهِ؟ وَمَا ذَا تَشْهَدُ عَلَيْهِ؟ قالَ: فَيَقُولُ: مُحَمَّدٌ ، أَشْهَدُ أَنَّهُ رَسُولُ اللهِ ، وَأَنَّهُ جَاءَ بِالْحَقِّ مِنْ عِنْدِ اللهِ، فَيُقَالُ لَهُ عَلَى ذَلِكَ حُيَيْتَ، وَعَلَى ذَلِكَ مِتَّ، وَعَلى ذلِكَ تُبْعَثُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ ، ثُمَّ يُفْتَحُ لَهُ بَابٌ مِنْ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ فَيُقَالُ لَهُ: هَذَا مَقْعَدُكَ مِنْهَا، وَمَا أَعَدَّ اللهُ لَكَ فيهَا فَيَزْدَادُ غِبْطَةً وَسُرُورًا، ثُمَّ يُفْسَحُ لَهُ بَابٌ مِنْ أَبْوَابٍ النَّارِ، فَيُقَالُ لَهُ: هَذَا مَقْعَدُكَ مِنْهَا وَ مَا أَعَدَّ اللَّهُ لَكَ فِيهَا لَوْ عَصَيْتَهُ، فَيَزْدَادُ غِبْطَةً وَ سُرُورًا، ثُمَّ يُفْسَحُ لَهُ فِي قَبْرِهِ سَبْعُونَ ذِرَاعًا، وَيُنَوِّرُ لَهُ فِيهِ، وَيُعَادُ الْجَسَدُ لِمَا بُدِى مِنْهُ ، فَتَجْعَلُ نَسَمَتُهُ فِي النَّسِيمِ الطيب، وهي طَيْرٌ تَعْلُقُ فِي شَجَرِ الْجَنَّةِ فَذَلِكَ قَوْلُهُ سُبْحَانَهُ يُثَيْتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ في الحيوةِ الدُّنْيَاء في الآخرة ) (ابراهيم: ٢٧].))

’’حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
میت جب قبر میں دفن کی جاتی ہے تو وہ پسماندگان کے (واپس لوٹتے وقت) جوتوں کی آواز سنتی ہے اگر میت مومن ہو تو اسے (قبر میں) کہا جاتا ہے:
بیٹھ جاؤ۔ وہ بیٹھ جاتا ہے اور اسے سورج غروب ہوتا دکھایا جاتا ہے اور پوچھا جاتا ہے کہ وہ شخص جو بہت پہلے تمہارے ہاں مبعوث ہوئے ان کے بارے میں تم کیا کہتے تھے اور تم ان کے بارے میں کیا گواہی دیتے ہو؟ مومن آدمی کہتا ہے:
ذرا بیٹھو مجھے نماز عصر ادا کرنے دو (سورج غروب ہونے والا ہے)۔ فرشتے کہتے ہیں:
بے شک تو (دنیا میں) نماز پڑھتا رہا ہے ہم جو بات پوچھ رہے ہیں اس کا ہمیں جواب دو، بتاؤ وہ شخص جو بہت پہلے تمہارے درمیان مبعوث کیے گئے ان کے بارے میں تم کیا کہتے تھے اور کیا گواہی دیتے تھے ؟ مومن آدمی کہتا ہے:
وہ (حضرت) محمد ( ﷺ ) ہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے رسول ہیں اور اللہ کی طرف سے حق لے کر آئے ہیں۔ تب اسے کہا جاتا ہے اسی عقیدے پر تو زندہ رہا، اسی پر مرا اور ان شاء اللہ اسی عقیدے پر اٹھے گا۔ پھر جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ اس کے لیے کھول دیا جاتا ہے اور اسے بتایا جاتا ہے:
جنت میں یہ تمہارا محل ہے اور جو کچھ اللہ نے جنت میں تمہارے لیے تیار کر رکھا ہے (وہ بھی دیکھ لو یہ سب کچھ دیکھ کر ) اس کے شوق اور لذت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ پھر اس کی قبر ستر ہاتھ (یعنی ۱۰۵ فٹ یا ۳۵ میٹر) کھلی کر دی جاتی ہے اور اسے منور کر دیا جاتا ہے۔ اس کے جسم کو پہلے والی حالت میں لوٹا دیا جاتا ہے (یعنی اسے سلا دیا جاتا ہے) اور اس کی روح کو پاکیزہ اور خوشبودار بنا دیا جاتا ہے اور یہ پرندے کی شکل میں جنت کے درختوں پر اڑتی پھرتی ہے۔ ( قبر میں مومن کا نیک انجام ) اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی تفسیر ہے:
اللہ تعالٰی اہل ایمان کو کلمہ طیبہ کی برکت سے دنیا اور آخرت کی زندگی (یعنی قبر ) میں ثابت قدمی عطا فرماتے ہیں۔‘‘

((عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: إِنَّ الْمَيْتَ يَصِيرُ إِلَى الْقَبْرِ فَيُجْلَسُ الرَّجُلُ الصَّالِحُ فِي قَبْرِهِ غَيْرَ فَرْعٍ وَلَا مَسْعُوفٍ ثُمَّ يُقَالُ لَهُ فِيمَ كُنتَ؟ فَيَقُولُ: كُنْتُ فِي الإسلام ، فَيُقَالُ لَهُ: مَا هَذَا الرَّجُلُ؟ فَيَقُولُ: مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ جَاءَنَا بِالْبَيِّنَاتِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ فَصَدَّقْنَاهُ، فَيُقَالُ لَهُ: هَل رَأَيْتَ اللهَ فَيَقُولُ: مَا يَنْبَغِي لَاحَدٍ أَنْ يَرَى اللَّهَ فَيُفْرَجُ لَهُ فُرْجَةً قِبَلَ النَّارِ فَيَنْظُرُ إِلَيْهَا يَحْطِمُ بَعْضُهَا بَعْضًا فَيُقَالُ لَهُ: أَنْظُرْ إِلَى مَا وَقَاكَ اللهُ ، ثُمَّ يُفْرَجُ لَهُ فُرْجَةً قبل الْجَنَّةِ فَيَنْظُرُ إِلى زَهْرَتِهَا وَمَا فِيهَا . فَيُقَالُ لَهُ: هَذَا مقْعَدُكَ، وَيُقَالُ لَهُ: عَلَى الْيَقِينِ كُنتَ وَ عَلَيْهِ مُتَّ وَ عَلَيْهِ تبْعَثُ إِنْ شَاءَ اللهُ. وَيُجْلَسُ الرَّجُلُ السُّوءُ فِي قَبْرِهِ فَرْعًا مَشْعُوْفًا فَيُقَالُ لَهُ: فِيمَ كُنتَ؟ فَيَقُولُ: لَا أَدْرِي ، فَيُقَالُ لَهُ: مَاهذَا الرَّجُلُ؟ فَيَقُولُ: سَمِعْتُ النَّاسَ يَقُولُونَ قَوْلًا فَقُلْتُهُ. فَيُفْرَجُ لَهُ قِبَلَ الْجَنَّةِ. فَيَنْظُرُ إِلَى زَهْرَيْهَا وَمَا فِيهَا . فَيُقَالُ لَهُ: أَنْظُرْ إِلَى مَا صَرَفَ اللهُ عَنْكَ ثُمَّ يُفْرَجُ لَهُ فُرْجَةً قِبَلَ النَّارِ. فَيَنظُرُ إِلَيْهَا يَحْطِمُ بَعْضُهَا بَعْضًا. فَيُقَالُ لَهُ: هَذَا مَقْعَدُكَ، عَلَى الشَّكِ كُنتَ وَ عَلَيْهِ مُتَ، وَعَلَيْهِ تُبْعَثُ إِنْ شَاءَ اللهُ تَعَالَى))

سنن ابن ماجة، كتاب الزهد، باب ذكر القبر و البلى، رقم ٤٢٦٨- المشكاة، رقم: ١٣٨ – التعليق الرغيب: ١٨٧/٤ –
محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔

’’حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
جب میت قبر میں دفن کی جاتی ہے تو نیک آدمی قبر میں کسی خوف اور گھبراہٹ کے بغیر اٹھ کر بیٹھ جاتا ہے۔ اس سے پوچھا جاتا ہے:
تو کون سے دین پر تھا؟ نیک (مومن) آدمی کہتا ہے:
میں اسلام پر تھا۔ پھر اس سے پوچھا جاتا ہے:
وہ آدمی کون تھا (جو تمہارے درمیان بھیجا گیا)؟ مومن آدمی کہتا ہے:
حضرت محمد ﷺ اللہ کے رسول تھے وہ اللہ کی طرف سے ہمارے پاس معجزات لے کر آئے اور ہم نے ان کی تصدیق کی۔ پھر اسے پوچھا جاتا ہے:
کیا تو نے اللہ کو دیکھا ہے؟ وہ کہتا ہے:
اللہ تعالی کو (دنیا میں) دیکھنا کسی کے لیے ممکن نہیں۔ چنانچہ اس کے لیے آگ کی طرف ایک سوراخ کھولا جاتا ہے اور وہ دیکھتا ہے کہ کس طرح آگ کا ایک حصہ دوسرے کو کھا رہا ہے۔ اسے بتایا جاتا ہے کہ دیکھو یہ ہے وہ آگ جس سے اللہ تعالیٰ نے تمہیں بچالیا ہے۔ پھر جنت کی طرف ایک دروازہ کھولا جاتا ہے اور مؤمن آدمی جنت کی بہاریں اور اس میں موجود نعمتیں دیکھتا ہے۔ اسے بتایا جاتا ہے یہ ہے تمہارا ٹھکانا ہے، تم نے (ایمان) پر زندگی بسر کی اور اسی ایمان کی حالت پر مرے اور اسی ایمان کی حالت پر ان شاء اللہ اٹھائے جاؤ گے۔ گنہ گار آدمی کو قبر میں بٹھایا جاتا ہے تو وہ بہت گھبرایا ہوا اور خوف زدہ ہوتا ہے۔ اسے پوچھا جاتا ہے تو کس مذہب پر تھا؟ وہ کہتا ہے:
میں نہیں جانتا۔ پھر پوچھا جاتا ہے:
وہ آدمی کون تھا (جو تمہارے درمیان بھیجا گیا )؟ وہ کہتا ہے:
میں نے لوگوں کو جو کچھ کہتے سنا وہی میں بھی کہتا تھا۔
جنت کی طرف ایک دروازہ کھولا جاتا ہے اور وہ جنت کی بہاروں اور اس میں موجود دوسری نعمتوں کو دیکھتا ہے تو اسے بتایا جاتا ہے کہ یہ ہے وہ جنت جس سے اللہ تعالیٰ نے تمہیں محروم کر دیا ہے۔ پھر اس کے لیے ایک دروازہ جہنم کی طرف کھولا جاتا ہے اور وہ دیکھتا ہے کس طرح آگ کا ایک حصہ دوسرے کو کھا رہا ہے۔ اسے بتایا جاتا ہے:
یہ ہے تمہارا ٹھکانہ، تو ( اللہ اور رسول ﷺ کے بارے میں) شک میں پڑا رہا اور شک کی حالت میں مرا اور یقینا شک پر ہی اٹھے گا۔‘‘
بَابُ الْوَاءِ الْعَذَابِ فِي الْقَبْرِ

قبر میں عذابوں کی اقسام کا بیان

((عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم دَخَلَ نَخْلَا لِبَنِي النَّجَارِ سَمِعَ صَوْتًا فَفَزِعَ ، فَقَالَ: مَنْ أَصْحَابُ هَذِهِ الْقُبُورِ؟ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ نَاسٌ مَاتُوا فِي الْجَاهِلِيَّةِ. فَقَالَ: تَعَوَّذُوا بِاللَّهِ مِنْ عَذَابِ النَّارِ وَ مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَالِ، قَالُوا وَمِمَّ ذَاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: وَإِنَّ الْكَافِرَ إِذَا وُضِعَ فِي قَبْرِهِ آتَاهُ مَلَكٌ فَيَسْتَهِرُهُ، فَيَقُولُ لَهُ: مَا كُنتَ تَعْبُدُ؟ فَيَقُولُ: لَا أَدْرِي ، فَيُقَالُ لَهُ: لا دَرَيْتَ وَلَا تَلَيْتَ . فَيُقَالُ لَهُ: مَا كُنْتَ تَقُولُ فِي هَذَا الرَّجُل؟ فَيَقُولُ: كُنْتُ أَقُولُ مَا يَقُولُ النَّاسُ فَيَضْرِبُهُ بِمِطْرَاقِ مِنْ حَدِيدِ بَيْنَ أَذْنَيْهِ ، فَيَصِيحُ صَيْحَةً يَسْمَعُهَا الْخَلْقُ غَيْرَ الثَّقَلَيْنِ . ))سنن ابوداود، كتاب السنة، باب في المسألة في القبر و عذاب القبر، رقم: ٤٧٥١- سلسلة الصحيحة، رقم، ١٣٤٤.

’’ حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ بنی نجار کے باغ میں گئے وہاں آپ نے ایک آواز سنی جس سے گھبرا گئے اور دریافت فرمایا:
یہ قبریں کن لوگوں کی ہیں؟ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا:
یہ ان لوگوں کی قبریں ہیں جو زمانہ جاہلیت میں فوت ہوئے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
آگ کے عذاب سے اور فتنہ دجال سے اللہ کی پناہ مانگو۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا:
یا رسول اللہ ! وہ کس لیے ؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
دفن ہونے والی میت اگر کافر (منافق) ہو تو اس کے پاس ایک فرشتہ آتا ہے اور اسے خوب ڈانٹ کر پوچھتا ہے تو کس کی عبادت کرتا تھا؟ کافر (یا منافق) کہتا ہے:
میں نہیں جانتا۔ فرشتہ اسے جواب میں کہتا ہے:
تو نے نہ تو خود عقل سے کام لیا نہ (قرآن) پڑھا۔ پھر فرشتہ پوچھتا ہے:
اس آدمی (یعنی حضرت محمد ﷺ) کے بارے میں تو کیا کہتا تھا؟ کافر (یا منافق) کہتا ہے:
میں وہی کہتا تھا جو دوسرے لوگ کہتے تھے۔ ( یہ جواب سن کر ) فرشتہ اس کے دونوں کانوں کے درمیان (یعنی دماغ پر ) لوہے کے گرزوں سے مارنا شروع کر دیتا ہے اور وہ بری طرح چیخنے چلانے لگتا ہے اس کی آواز جن و انس کے علاوہ ہر جانور مخلوق سنتی ہے۔‘‘

((عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ : وَإِنَّ الْعَبْدَ الْكَافِرَ فَتُعَادُ رُوحُهُ فِي جَسَدِهِ، وَيَأْتِيهِ مَلَكَان فَيُجْلِسَانِهِ فَيَقُولَان لَهُ: مَنْ رَّبُّكَ فَيَقُولُ: هَاءَ هَاهُ لَا أَدْرِي . قَالَ فَيَقُولان لَهُ: مَا دِينَكَ؟ فَيَقُولُ: هَاءِ هَاءَ لَا أَدْرِي ، قَالَ فَيَقُولَان لَهُ: مَا هَذَا الرَّجُلُ الَّذِي بَعَثَ فِيكُمْ؟ فَيَقُولُ: هَاه هاه لا أَدْرِي فَيُنَادِي مُنَادٍ مِنَ السَّمَاءِ: أَنْ كَذَبَ ، فَأَفْرِشُوا لَهُ مِنَ النَّارِ وَ الْبِسُوهُ مِنَ النَّارِ) وَافْتَحُوا لَهُ بَابًا إِلَى النَّارِ فَيَأْتِيهِ مِنْ حَرِهَا وَسُمُوْمِهَا ، ويَضِيقُ عَلَيْهِ قَبْرُهُ حَتَّى تَخْتَلِفَ فِيهَ أَضْلاعُهُ، وَيَأْتِيهِ رَجُلٌ فَيحُ الوَجْهِ، فَبِيحُ الرِّبَابِ مُنينُ الرِّيحِ ، فَيَقُولُ: أَبْشِرْ بِالَّذِى يَسِيتُكَ، هَذَا يَوْمُكَ الَّذِي كُنْتَ تُوْعَدُ. فَيَقُولُ: مَنْ أَنْتَ فَوَجْهكَ الْوَجْهُ الفَيحُ يَجِيءُ بِالشَّرِ؟ فَيَقُولُ: أَنَا عَمَلكَ الْخَيْتُ فَيَقُولُ: رَبِّ لَا تَقُمِ السَّاعَةَ ، وَفِي رِوَايَةٍ لَّهُ بِمَعْنَاهُ وَزَادَ فَيَأْتِيهِ آتِ فَبِيحُ الوَجْهِ، فَبِيحُ القِيَابِ، مُنتِنُ الريح. فَيَقُولُ: أَبْشِرْ بَهَوَانِ مِنَ اللَّهِ وَ عَذَابٍ مُقِيمٍ ، فَيَقُولُ: بَشَرَكَ اللهُ بالشَّرِ، مَنْ أَنْتَ فَيَقُولُ: وَأَنْتَ أَنَا عَمَلُكَ الْخَبِيثُ كُنتَ بَطِينا عَنْ طَاعَةِ اللهِ سَرِيعًا فِي مَعْصِيَتِهِ فَجَزَاكَ اللهُ شَرًّا، ثُمَّ يُقَيَّضُ لَهُ أَعْمَى أَصَمُ ابكُمْ فِي يَدِهِ مِرْزَبَةٌ لَوْ ضُرِبَ بِهَا جَبَلْ كَانَ تُرَابًا، فَيَضْرِبُهُ ضَرْبَةً حَتَّى يَصِيرَ تُرَابًا ، ثُمَّ يُعِيدُهُ اللهُ كَمَا كَانَ، فَيَضْرِبُهُ ضَرْبَةٌ أُخْرَى فَبَصِيحُ صَيْحَةً يَسْمَعُهُ كُلُّ شَيْءٍ إِلَّا الثَّقَلَيْنِ . قَالَ الْبَرَاءُ ثُمَّ يُفْتَحُ لَهُ بَابٌ مِّنَ النَّارِ وَيُمَهَّدُ لَهُ مِنْ فَرْشِ النَّارِ . ))الترغيب والترهيب لمحى الدين ديب الجزء الرابع، رقم الحديث: ٥٢٢١.

’’ حضرت براء بن عازبؓ کہتے ہیں:
رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
(قبر میں) کا فر آدمی کی روح جب اس کے جسم میں لوٹائی جاتی ہے تو اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں جو اسے اٹھا کر بٹھا دیتے ہیں اور پوچھتے ہیں:
تیرا رب کون ہے؟ کا فر کہتا ہے:
ہائے افسوس میں نہیں جانتا۔ فرشتے پوچھتے ہیں:
تیرا دین کون سا ہے؟ کافر کہتا ہے:
ہائے افسوس میں نہیں جانتا۔ فرشتے پوچھتے ہیں:
وہ شخص جو تمہارے درمیان مبعوث کیے گئے تھے وہ کون تھے؟ کافر کہتا ہے:
ہائے افسوس میں نہیں جانتا۔ آسمان سے منادی کی آواز آتی ہے اس نے جھوٹ کہا ہے اس کے لیے آگ کا بستر بچھا دو، اسے آگ کا لباس پہنا دو، اس کے لیے جہنم کی طرف ایک دروازہ کھول دو۔ چنانچہ جہنم کی گرم اور زہریلی ہوا اسے آنے لگتی ہے۔ اس کی قبر اس پر تنگ کر دی جاتی ہے حتی کہ اس کی ایک طرف کی پسلیاں دوسری طرف کی پسلیوں میں پیوست ہو جاتی ہیں۔ پھر اس کے پاس ایک بدصورت، غلیظ کپڑوں والا، بدترین بد بو والا شخص آتا ہے اور کہتا ہے:
تجھے برے انجام کی بشارت ہو یہ ہے وہ دن جس کا تجھ سے وعدہ کیا گیا تھا۔ کا فر کہتا ہے تو کون ہے؟ تیرا چہرہ بڑا ہی بھدا ہے، تو ( میرے لیے) برائی لے کر آیا ہے۔ وہ جواب میں کہتا ہے:
میں تیرے اعمال ہوں۔ تب کا فر کہتا ہے اے میرے رب! قیامت قائم نہ کرنا۔ ایک روایت یہ ہے کہ اس کے پاس ایک بدشکل، غلیظ کپڑوں والا بد بودار شخص آتا ہے اور کہتا ہے:
تجھے رسوا کن اور ہمیشہ رہنے والے عذاب کی بشارت ہو۔ کافر کہتا ہے کہ اللہ تجھے شر سے نوازے تو کون ہے؟ وہ کہتا ہے میں تیرے گندے اعمال ہوں۔ (دنیا میں ) تو اللہ تعالٰی کی اطاعت میں ٹال مٹول کرنے والا اور اس کی نافرمانی میں ہر وقت تیار رہتا تھا، اللہ تجھے بدترین بدلہ عطا فرمائے۔ پھر اس پر ایک اندھا اور بہرہ فرشتہ مسلط کر دیا جاتا ہے جس کے ہاتھ میں لوہے کا گرز ہوتا ہے، اگر پہاڑ پر مارا جائے تو پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائے ، فرشتہ اسے بری طرح مارتا ہے۔ کافر ایک ہی ضرب میں ریزہ ریزہ ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے پھر پہلے والی حالت میں لوٹا دیتا ہے ( یعنی اس کا جسم صحیح سالم کر دیا جاتا ہے) پھر فرشتہ اسے دوسری دفعہ مارتا ہے تو کا فر بری طرح چیخنے چلانے لگتا ہے جسے جن و انس کے علاوہ ہر جان دار مخلوق سنتی ہے۔ حضرت براء بن عازبؓ کہتے ہیں پھر اس کے لیے آگ کی طرف دروازہ کھول دیا جاتا ہے اور اس کے لیے آگ کا بستر بچھا دیا جاتا ہے۔‘‘

((عَنْ هَانِي مُوْلَى عُثْمَانَ قَالَ: كَانَ عُثْمَانُ إِذَا وَقَفَ عَلَى قبر بَكَى حَتَّى بَل لِحْيَتَهُ، فَقِيلَ لَهُ: تُذكَرُ الْجَنَّةُ وَالنَّارُ ، فَلا تبْكِي وَ تَبْكِي مِنْ هَذَا؟ فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ قَالَ: إِنَّ الْقَبْرَ أَوَّلُ مَنْزِلٍ مِنْ مَنَازِلِ الآخِرَةِ، فَإِنْ نَّجَا مِنْهُ فَمَا بَعْدَهُ أَيْسَرَ مِنْهُ وَإِنْ لَّمْ يَنجُ مِنْهُ فَمَا بَعْدَهُ أَشَدُّ مِنْهُ، قَالَ: وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ : مَا رَأَيْتُ مَنْظَرًا قَط إِلَّا وَ الْقَيْرُ أَفْضَعُ مِنْهُ . ))سنن ترمذی، ابواب الزهد، باب: ۵، رقم: ۲۳۰۸۔
محدث البانی نے اسے ’’حسن‘‘ کہا ہے۔

’’ حضرت عثمانؓ کے آزاد کردہ غلام حضرت ہانیؓ کہتے ہیں کہ حضرت عثمانؓ جب کسی قبر پر کھڑے ہوتے تو اس قدر روتے کہ داڑھی مبارک تر ہو جاتی۔ آپ سے عرض کیا گیا:
آپ جنت اور دوزخ کا ذکر فرماتے ہیں تو نہیں روتے لیکن قبر کے ذکر پر اس قدر روتے ہیں؟ حضرت عثمانؓ نے کہا اس لیے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ قبر آخرت کی منازل میں سے سب سے پہلی منزل ہے اگر کسی نے اس سے نجات پالی تو اگلی منزلیں اس کے لیے آسان ہوں گی اور اگر اس سے نجات نہ ملی تو بعد کی منازل اس سے کہیں زیادہ سخت ہوں گی نیز اللہ کے رسول ﷺ ارشاد فرمایا کرتے تھے:
میں نے قبر سے زیادہ گھبراہٹ اور سختی والی کوئی اور جگہ نہیں دیکھی۔‘‘

((عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرِ تَقُولُ: قَامَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم خَطِيبًا فَذَكَرَ فِتْنَةَ الْقَبْرِ الَّتِي يُفْتَتَنُ فِيهَا الْمَرْءُ فَلَمَّا ذَكَرَ ذَلِكَ ضَعَ الْمُسْلِمُونَ صجة.))صحیح بخاری، کتاب الجنائز، باب ما جاء في عذاب القبر، رقم: ۱۳۷۳.

’’حضرت اسماء بنت ابی بکرؓ کہتی ہیں رسول اکرم ﷺ خطبہ ارشاد فرمانے کے لیے کھڑے ہوئے تو آپ ﷺ نے فتنہ قبر کا ذکر فرمایا جس میں آدمی مبتلا ہو گا، جب آپ ﷺ ذکر فرما رہے تھے تو مسلمانوں نے (خوف زدہ ہو کر) بری طرح چیخنا چلانا شروع کر دیا۔‘‘

((أنَّ آبَا هُرَيْرَةَ بَكَى فِى مَرَضِهِ فَقِيلَ مَا يُبْكِيْكَ؟ فَقَالَ أَمَا أَنِّي لَا أَبْكِي عَلَى دُنْيَاكُمْ هَذِهِ وَلَكِنْ أَبْكِي عَلَى بُعْدِ سَفَرِى وَقِلَّةِ زَادِي وَإِنِّي أَمْسَيْتُ فِي صَعُودٍ مُهْبَطَةٍ عَلَى جَنَّةٍ وَّ نَارٍ لا أدْرِي عَلَى أَيَّتِهِمَا يُؤْخَذْنِي .))كتاب الزهد لابن مبارك، رقم الصفحة: ۳۸.

’’حضرت ابو ہریرہؓ اپنے مرض الموت میں رونے لگے۔ آپ سے پوچھا گیا کہ کیوں رو رہے ہیں؟ فرمانے لگے:
میں تمہاری اس دنیا ( کو چھوڑنے کی) وجہ سے نہیں روتا بلکہ ( آئندہ پیش آنے والے) طویل سفر اور قلت زاد سفر کی وجہ سے رو رہا ہوں۔ میں نے ایسی بلندی پر شام کی ہے جس کے آگے جنت ہے یا جہنم اور میں نہیں جانتا ان دونوں میں میرا مقام کون سا ہوگا۔‘‘
بَابُ ضَغْطِ الْقَبْرِ لِلْمَيِّتِ الْمُؤْمِنِ

قبر کے مومن میت کو دبانے کا بیان

((عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنْ رَسُولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ: هَذَا الَّذِي تَحَرَّكَ لَهُ الْعَرْسُ ، وَفُتِحَتْ لَهُ أَبْوَابُ السَّمَاءِ ، وَ شَهِدَهُ سَبْعُونَ أَلْفَا مِّنَ الْمَلَئِكَةِ لَقَدْ ضُمَّ ضَمَّةٌ ثُمَّ فُرجَ عَنْهُ .))سنن نسائی، کتاب الجنائز، باب ضمة القبر و ضغطته: ١٩٤٢/٢.

’’حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:
سعد بن معاذؓ وہ شخص ہے جس ( کی وفات پر اللہ تعالیٰ) کا عرش ہل گیا، جس کے لیے آسمانوں کے (سارے) دروازے کھول دیئے گئے ، جس (کے جنازے) میں ستر ہزار فرشتے شریک ہوئے اسے بھی قبر نے ایک مرتبہ دبایا پھر فراخ ہوگی۔‘‘
باب عَقِيدَةِ التَّوْحِيدِ وَسُوَّالِ الْمُنْكَرِ وَالنَّكِيرِ

عقیدہ توحید اور منکر نکیر کے سوال کرنے کا بیان

قَالَ اللهُ تَعَالَى: (يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ ۖ وَيُضِلُّ اللَّهُ الظَّالِمِينَ ۚ وَيَفْعَلُ اللَّهُ مَا يَشَاءُ) (ابراهیم: ۲۷]
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
اللہ ایمان والوں کو دنیا کی زندگی میں حق بات یعنی کلمہ طیبہ پر ثابت قدم رکھتا ہے اور ظالموں کو گمراہ کر دیتا ہے اور اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔‘‘

((عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ: إِذَا أَقْعِدَ الْمُؤْمِنُ فِى قَبْرِهِ أَتِى ثُمَّ شَهِدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُولُ اللَّهِ فَذَلِكَ قَوْلُهُ: (يُيُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ ) [إبراهيم: ٢٧] . ))صحیح بخاری، کتاب الجنائز، باب ما جاء في عذاب القبر، رقم: ١٣٦٩.

’’حضرت براء بن عازبؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
جب مومن اپنی قبر میں بٹھایا جاتا ہے تو اس کے پاس (فرشتے) آتے ہیں اور مومن آدمی گواہی دیتا ہے ’’لا الہ الا اللہ و ان محمد رسول اللہ‘‘ اللہ تعالیٰ کے فرمان (يُثَيْتُ اللهُ الَّذِينَ …) اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو کلمہ طیبہ کی برکت سے دنیا اور آخرت ( یعنی قبر ) میں ثابت قدم رکھتا ہے۔ کا یہی مطلب ہے۔‘‘

((عَنْ أَبِي سَعِيدِ نِ الْخُدْرِي قَالَ بَعْضُ الْقَوْمِ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا أَحَدٌ يَقُومُ عَلَيْهِ مَلَكَ فِي يَدِهِ مِطْرَاقٌ إِلَّا هُبِلَ (هَلَكَ ) عِنْدَ ذلِكَ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ يُثَيْتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بالقولِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا.الترغيب والترهيب، الجزء الرابع، رقم الحديث: ٥٢١٩.

’’حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ (عذاب قبر کے بارے میں سن کر ) لوگوں نے عرض کیا:
یا رسول اللہ ! جس آدمی کے سر پر فرشتہ گرز لیے کھڑا ہوگا وہ تو خوف اور دہشت سے (ہوش و حواس کھو کر ) مٹی کا بت بن جائے گا ( وہ جواب کیسے دے گا ؟ ) آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
اہل ایمان کو اللہ تعالٰی کلمہ طیبہ کی برکت سے دنیا اور آخرت (یعنی قبر ) میں ثابت قدم رکھتا ہے۔‘‘

((عَنْ عَائِشَةَ قَالَ: قُلْتُ يَا رَسُولَ اللهِ تُبتلى هَذِهِ الأمة في قُبُورِهَا ، فَكَيْفَ بِي وَ أَنَا امْرَأَةٌ ضَعِيفَةٌ قَالَ: يُثَيْتُ الله الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَ فِي الْآخِرَةِ ) . ))ايضاً، رقم الحديث: ٥٢١٨.

’’ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں میں نے عرض کیا:
یا رسول اللہ ! لوگ اپنی قبروں میں آزمائے جائیں گے اور میرا کیا حال ہوگا میں تو ایک کمزور سی خاتون ہوں؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو کلمہ توحید کی برکت سے دنیا کی زندگی اور قبر میں ثابت قدم رکھتا ہے۔‘‘
باب: الْأَعْمَالِ الصَّالِحَةُ جُنَّةٌ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ

بیان کہ نیک اعمال عذاب قبر سے ڈھال ہیں

((عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِي قَالَ: يُؤْتَى الرَّجُلُ فِي قَبْرِهِ فَإِذَا أُتِيَ مِنْ قِبَلِ رَأْسِهِ دَفَعَتْهُ تِلَاوَةُ الْقُرْآن وَإِذَا أُتِيَ مِنْ قِبل يَدَيْهِ دَفَعَتْهُ الصَّدَقَةُ وَإِذَا أُتِيَ مِنْ قِبَلِ رِجْلَيْهِ دَفَعَتْهُ مَشْيُهُ إِلَى الْمَسَاجِدِ . )) الترغيب والترهيب، الجزء الرابع، رقم الحديث: ٥٢٢٥.

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
آدمی جب قبر میں دفن کیا جاتا ہے تو فرشتہ سر کی طرف سے عذاب دینے کے لیے آتا ہے تو تلاوت قرآن اسے دور کر دیتی ہے جب فرشتہ سامنے سے آتا ہے تو صدقہ خیرات اسے دور کر دیتے ہیں اور جب پاؤں کی طرف سے فرشتہ آتا ہے تو مسجد کی طرف چل کر جانا اسے دور کر دیتا ہے۔‘‘
بَاب الْمَأْمُونُونَ مِنْ فِتْنَةِ الْقَبْرِ

فتنہ قبر سے محفوظ رہنے والے لوگوں کا بیان

((عَنْ فُضَالَةَ بْنِ عُبَيْدِ يُحَدِّثُ عَنْ رَسُولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم أَنَّهُ قَالَ: كُلُّ مَيْتٍ يُخْتَمُ عَلَى عَمَلِهِ إِلَّا الَّذِي مَاتَ مُرَابِطًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَإِنَّهُ يُنْمَى لَهُ عَمَلُهُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَ يَأْمَنُ فِتْنَةَ الْقَبْرِ .))سلسلة احاديث الصحيحة، رقم الحديث: ١١٤٠.

’’حضرت فضالہ بن عبیدؓ رسول اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
ہر مرنے والے کے عمل (کا ثواب اس کے مرنے کے ساتھ ) ختم کر دیا جاتا ہے سوائے اس شخص کے جو اللہ کی راہ میں پہرہ دیتے ہوئے مرے اس کے عمل (کا ثواب ) مسلسل قیامت تک اسے ملتا رہتا ہے نیز وہ فتنہ قبر سے بھی محفوظ رہتا ہے۔‘‘

((عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ : مَا مِنْ مُسْلِم يَمُوتُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ أَوْ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ إِلَّا وَقَاهُ اللهُ فِتْنَةَ القبر . ))سنن ترمذی، کتاب الجنائز، باب ما جاء فيمن يموت يوم الجمعة، رقم: ١٠٧٤ – محدث البانی نے اسے حسن کہا ہے۔

’’حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
جو مسلمان جمعہ کے دن یا جمعہ کی رات فوت ہوا اللہ اسے قبر کے فتنہ سے بچالے گا۔“

((عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ سُوْرَةٌ تَبَارَكَ هِيَ الْمَانِعَةُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ . ))سلسلة احاديث الصحيحة، رقم الحديث: ١١٤٠.

’’حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں سورہ ملک (تَبٰرَكَ الَّذِیْ بِیَدِهِ الْمُلْكُ٘) عذاب قبر سے بچاؤ کا ذریعہ ہے۔‘‘

((عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بِنْ يَسَارٍ قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا وَ سُلَيْمَانُ ابْنُ صُرَدِ ، وَخَالِدُ بْنُ عُرْفَطَةَ ، فَذَكَرُوا أَنَّ رَجُلًا تُونِي، مَاتَ بِبَطْنِهِ ، فَإِذَاهُمَا يَشْتَهِيَانِ أَنْ يَكُونَا شُهَدَاءَ جَنَازَتِهِ فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِلْآخَرِ: أَلَمْ يَقُلْ رَسُولَ اللَّهِ : مَنْ يَقْتُلَهُ بَطْنُهُ، لَمْ يُعَذِّبْ فِي قَبْرِهِ ، فَقَالَ الآخَرُ: بَلَى ! . ))سنن نسائی، کتاب الجنائز، باب من قتله بطنه، رقم: ۲٠٥۲۔ محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔

’’حضرت عبداللہ بن بیسار رضی اللہ سے روایت ہے کہ میں بیٹھا تھا ، سلیمان بن صرد اور خالد بن عرفہؓ ( آئے اور ) لوگوں نے عرض کیا کہ فلاں شخص پیٹ کی تکلیف سے مرگیا ہے۔ ان دونوں نے خواہش کی کہ کاش وہ اس آدمی کے جنازے میں شریک ہوتے۔ پھر ایک آدمی نے دوسرے سے کہا:
کیا رسول اللہ ﷺ نے یہ بات ارشاد نہیں فرمائی کہ جس شخص کو پیٹ مار ڈالے اسے قبر میں عذاب نہیں دیا جائے گا؟ دوسرے نے جواب دیا:
کیوں نہیں۔“
بَابُ كَيْفِيَّةِ الْأَجْسَامِ فِي الْقُبُورِ

قبروں میں اجسام کی حالت کا بیان

((عَنْ أَوْسِ بْنِ أَوْسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ : إِنَّ مِنْ أَفْضَلِ أَيَّامِكُمْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فِيهِ خُلِقَ آدَمُ، وَفِيهِ قُبِضَ ، وَفِيهِ النَّفْخَةُ، وَفِيهِ الصَّعْقَةُ، فَأَكْثِرُوا عَلَى مِنَ الصَّلَاةِ فِيهِ فَإِنَّ صَلَاتَكُمْ مَّعْرُوضَةٌ عَلَيَّ. قَالَ: قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَكَيْفَ تُعْرَضُ صَلَاتُنَا عَلَيْكَ وَقَدْ أَرِمْتَ؟ قَالَ يَقُولُونَ بَلِيْتَ فَقَالَ: إِنَّ اللهَ عَزَّوَجَلَّ حَرَّمَ عَلَى الْأَرْضِ أَجْسَادَ الأَنْبِيَاءِ .))سنن ابو داود، باب تقريع ابواب الجمعة، رقم الحديث: ١٠٤٧۔ محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔

’’ حضرت اوس بن اوسؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
سب دنوں میں جمعہ کا دن افضل ہے اسی روز آدمؑ پیدا کیے گئے، اسی روز ان کی روح قبض کی گئی، اسی روز صور پھونکا جائے گا، اسی روز اٹھنے کا حکم ہوگا، لہذا اس روز مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو تمہارا درود میرے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا:
اے اللہ کے رسول! آپ کی ہڈیاں بوسیدہ ہو چکی ہوں گی یا یوں کہا کہ آپ ﷺ کا جسم مبارک مٹی میں مل چکا ہوگا تو پھر ہمارا درود آپ کے سامنے کیسے پیش کیا جائے گا؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
کہتے ہیں کہ آپ کا جسم مبارک مٹی میں مل چکا ہوگا حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تو انبیاء کے جسم زمین پر حرام کر دیئے ہیں۔‘‘

((عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ : لَيْسَ شَيْءٌ مِّنَ الإِنْسَانَ إِلَّا يَبْلَى إِلَّا عَظَمَا وَاحِدًا وَهُوَ عَجْبُ الذَّنْبِ وَمِنْهُ يُركَّبُ الْخَلْقُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ . ))سنن ابن ماجة، كتاب الزهد، باب ذكر القبر و البلى، رقم: ٤٢٦٦ – محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
سوائے ایک ہڈی کے انسان کا سارا جسم مٹی میں رُل مل جاتا ہے۔ وہ ریڑھ کی ہڈی ہے۔ قیامت کے روز اسی سے انسان کی تخلیق ہوگی ۔‘‘
باب اين يُقِيمُ الرُّومُ بَعْدَ الْخُرُوةِ مِنَ الْجَسَدِ؟

بیان کہ جسم سے نکلنے کے بعد روح کہاں قیام کرتی ہے؟

((عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ كَعْبِ الأَنْصَارِي وَ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّ آبَاهُ كَانَ يُحَدِّثُ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ: إِنَّمَا نَسَمَةُ الْمُؤْمِنِ طَائِرٌ يَعْلَقُ فِي شَجرِ الْجَنَّةِ حَتَّى يَرْجِعَ إِلَى جَسَدِهِ يَوْمَ يُبْعَثُ . ))سنن ابن ماجة، كتاب الزهد، باب ذكر القبر و البلی، رقم ٤٢٧١- سلسلة الصحيحة، رقم: ٩٩٥۔

’’ حضرت عبد الرحمٰن بن کعب انصاری بھی اللہ سے روایت ہے کہ ان کے باپ رسول اللہ ﷺ کی حدیث بیان کرتے تھے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مومن کی روح (مرنے کے بعد ) جنت کے درختوں پر اڑتی پھرتی ہے یہاں تک کہ جس روز مردے اٹھائے جائیں گے اس روز وہ روح اپنے جسم میں لوٹا دی جائے گی۔‘‘
بَابُ الْإِسْتِعَادَةِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ

عذاب قبر سے پناہ مانگنے کی دعاؤں کا بیان

((عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ صلى الله عليه وسلم قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَدْعُو اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُبِكَ مِنْ عَذَابَ الْقَبْرِ وَ مِنْ عَذَابِ النَّارِ وَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ وَ مِنْ فِتْنَةِ المَسِيحِ الدَّجَّالِ . ))صحیح بخارى، كتاب الجنائز، باب التعوذ من عذاب القبر، رقم: ۱۳۷۷.

’’حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ یہ دعا مانگا کرتے تھے۔ یا اللہ ! میں تیری پناہ طلب کرتا ہوں عذاب قبر سے، عذاب جہنم سے زندگی اور موت کے فتنوں سے اور مسیح دجال کے فتنے سے۔‘‘
باب: الْاِسْتِغْفَارُ لِأَهْلِ الْقبُورِ

اہل قبور کے لیے استغفار کا بیان

((عَنْ بُرَيْدَةَ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ يُعَلِمُهُمْ إِذَا خَرَجُوا إلَى الْمَقَابِرِ فَكَانَ قَائِلُهُمْ، يَقُولُ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الدِّيَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُسْلِمِينَ وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّهُ بِكُمْ لَلَاحِقُونَ أسال الله لَنَا وَلَكُمُ الْعَافِية .))صحيح مسلم، کتاب الجنائز، باب ما يقال عند دخول القبور و الدعاء لاهلها، رقم: ٢٢٥٧.

’’حضرت بریدہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ لوگوں کو یہ دعا سکھلایا کرتے تھے جب وہ قبرستان کی طرف جائیں تو یوں کہیں:
اے اس گھر کے مسلمان اور مؤمن باسیو! السلام علیکم! ہم ان شاء اللہ تمہارے پاس آنے ہی والے ہیں، میں اللہ تعالیٰ سے اپنے اور تمہارے لیے خیر و عافیت کے طلب گار ہوں۔‘‘
وَصَلَّى اللَّهُ تَعَالَىٰ عَلَى خَيْرٍ خَلْقِهِ مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ وَصَحْبِهِ أَجْمَعِينَ .

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
لنکڈان
ٹیلی گرام
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: