قبرِ برزخ کی توضیح: یہودیہ و تنّور والی احادیث کا فہم
ماخوذ : فتاویٰ علمائے حدیث

سوال

عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک یہودیہ کے پاس سے گزرے جس پر اس کے گھر والے رو رہے تھے۔ آپ نے فرمایا: ’’لوگ اس (یہودیہ) پر رو رہے ہیں اور اس کو اس کی قبر میں عذاب دیا جارہا ہے۔‘‘
(بخاری)
اس روایت سے یہ سمجھ آتا ہے کہ وہ یہودیہ عورت ابھی زمین کی قبر میں دفن بھی نہ ہوئی تھی، وہ تو زمین کے اوپر ہی تھی؛ اس کے باوجود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس یہودیہ عورت کو اس کی قبر میں عذاب دیا جارہا ہے۔‘‘
لہٰذا معلوم ہوا کہ یہاں قبر سے مراد برزخی قبر ہے، دنیاوی مٹی کی قبر نہیں۔ آپ نے مطالبہ کیا تھا کہ بخاری شریف سے کتاب و باب کے ساتھ اصل الفاظ نقل کیے جائیں۔ ملاحظہ کیجیے:

بخاری شریف کا باب و متن (اصل الفاظ بعینہٖ)

باب: قَولِ النَّبِیِّ ﷺ یُعَذَّبُ الْمَیِّتُ بِبَعْضِ بُکَآء اَھْلِه، عَلَیْه… حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ یُوْسُفَ قَالَ أَخْبَرَنَا مَالِك عَنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ اَبِیْ بَکْرٍ عَنْ أَبِیْه عَنْ عَمْرَة بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ اَنَّھَآ اَخْبَرَتْه اَنَّھََا سَمِعَتْ عَآئِشة زَوْجَ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْه وَسَلَّمَ قَالَتْ اِنَّمَا مَرَّ رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ عَلٰی یَھُودِیَّة یَّبْکِی عَلَیْھَآ أَھْلُھَا فَقَالَ: «اِنَّھُمْ لَیَبْکُوْنَ عَلَیْھَا وَاِنَّھَا لَتُعَذَّبُ فِیْ قَبْرِھَا»
(بخاری شریف ؍ کتاب الجنائز)

سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کی روایت کا پس منظر

— رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں تنّور نما گڑھا دیکھا، جس میں برہنہ مرد و عورتوں کو عذاب ہو رہا تھا…
(بخاری شریف)
اس کے ساتھ ایک اشکال یہ پیش کیا جاتا ہے کہ دنیا میں زناکاروں کی قبریں مختلف ممالک اور مقامات میں ہوتی ہیں، تو برزخ میں کیا انہیں ایک ہی تنور میں جمع کر کے آگ کا عذاب دیا جاتا ہے؟
اس سوال کے جواب میں یہ وضاحت کی گئی تھی کہ تمام زناۃ و زانیات کو ایک ہی تنور میں جمع کرنے کا ذکر نہ قرآنِ مجید میں ہے اور نہ حدیث میں۔ برائے وضاحت، روایتِ سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کے اصل الفاظ ملاحظہ ہوں:

متنِ حدیث (اصل الفاظ بعینہٖ)

قَالاَ انْطَلِقْ فَانْطَلَقْنَا اِلٰی نَقْبٍ مِّثْلِ التَّنُوْرِ اَعْلاَہُ ضَیِّقٌ وَّاَسْفَلُه وَاسِعٌ تَتَوقَّدُ تَحْتَه نَارٌ فَإِذَا اقْتَرَبَ ارْتَفَعُوْا حَتّٰی کَادُوْا یَخْرُجُوْنَ فَاِذَا خَمَدَتْ رَجَعُوْا فِیْھَا وَفِیْھَا رِجَالٌ وَّنِسَآء عُرَاة فَقُلْتُ مَا ھٰذَا
(بخاری شریف ، کتاب الجنائز)

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نکتہ اوّل:
ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی مذکورہ حدیث میں مرور علی القبر کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ اسی سے یہ استدلال بنتا ہے جو اس یہودیہ کے میّت ہونے کے فہم کی دلیل بھی ہے—یعنی عذابِ قبر کا تعلق برزخی حالت سے ہے، خواہ دنیاوی تدفین ابھی نہ ہوئی ہو۔

نکتہ دوم (اصل بیان حسبِ منقول):
’’ میرے جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ تمام دنیا کے تمام زناۃ و زانیات کے ایک ہی تنور میں معذوب ہونے کا ذکر نہ قرآنِ مجید میں ہے اور نہ ہی حدیث میں۔ جو حدیث آپ نے درج فرمائی ہے، اس میں بھی اس چیز کا ذکر نہیں ہے۔ ایک دفعہ پھر غور سے پڑھیں، بات واضح ہوجائیگی۔ ان شاء اللہ الحنان۔‘‘

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے