مردوں (یعنی قبروں) کی زیارت مشروع ہے اور زائر قبلہ رخ کھڑا ہو
➊ حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
قد كنت نهيتـكـم عـن زيارة القبور فقد أذن لمحمد فى زيارة قبر أمه فزوروها فإنها تذكر الآخرة
”بے شک میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے روکا تھا، پس محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی والدہ کی قبرکی زیارت کی اجازت دے دی گئی ہے لٰہذا تم بھی قبروں کی زیارت کرو یقینا یہ آ خرت یاد دلاتی ہیں۔“
[مسلم: 977 ، كتاب الجنائز: باب استئذان النبى ربه عز و جل فى زيارة قبر أمه ، ترمذى: 1054 ، أبو داود: 3235 ، ابن حبان: 3168 ، حاكم: 376/1 ، بيهقى: 76/4]
➋ ایک روایت میں یہ لفظ ہیں:
فمن أراد أن يزور فليزر ولا تقولوا هجرا
”جو شخص (قبروں کی) زیارت کا ارادہ رکھتا ہے اسے زیارت کرنی چاہیے لیکن (وہاں) تم کوئی باطل کلام نہ کرو۔“
[نسائي: 285/1 – 286]
➌ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ قبروں کی زیارت کرو :
فإن فيها عبرة
”کیونکہ ان میں عبرت ہے۔“
[صحيح: احمد: 38/3 ، حاكم: 374/1 ، امام بیهقيؒ فرماتے هيں كه يه حديث مسلم كي شرط پر صحیح هے اور امام ذهبيؒ نے بهي
اس كي موافقت كي هے۔ بيهقي: 77/4 ، امام ہيثميؒ بيان كرتے هيں كه اس كے رجال صحيح كے رجال هيں۔ المجمع: 58/3]
(جمہور) قبروں کی زیارت مستحب ہے۔
[تحفة الأحوذى: 150/4]
(ابن حزمؒ) قبروں کی زیارت واجب ہے خواہ عمر میں ایک مرتبہ کی جائے ۔
[نيل الأوطار: 26/3]
ایک حدیث میں ہے کہ :
فجلس النبى صلى الله عليه وسلم مستقبل القبلة وجلسنا معه
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم قبلہ رخ ہو کر بیٹھ گئے اور ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھ گئے ۔ “
[صحيح: صحيح أبو داود: 2751 ، كتاب الجنائز: باب الجلوس عند القبر ، أبو داود: 3212 ، نسائي: 2001 ، ابن ماجة: 1548 ، أحمد: 297/4]
اس حدیث کی وجہ سے یہ عمل مستحب ہے ضروری نہیں۔