انبیاء اور اولیاء کی قبروں کو مسجد بنانا
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ام حبیبہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک گرجے کا ذکر کیا جو انہوں نے حبشہ میں دیکھا تھا، اس میں تصویریں بنی ہوئی تھیں۔
اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"ان (یہود و نصاریٰ) کا جب کوئی نیک شخص فوت ہوتا تو وہ اس کی قبر پر مسجد بناتے اور وہاں تصویریں بناتے۔ یہ لوگ قیامت کے دن اللہ کے نزدیک سب سے بدتر ہوں گے۔”
(بخاری: 427، مسلم، المساجد، باب النہی عن بناء المساجد علی القبور: 528)
عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی آخری بیماری میں فرمایا:
"اللہ یہود و نصاریٰ پر لعنت کرے جنہوں نے اپنے پیغمبروں کی قبروں کو مسجد بنا لیا۔”
عائشہ رضی اللہ عنہا مزید فرماتی ہیں:
"اگر اس بات کا خوف نہ ہوتا کہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کو مسجد بنا لیں گے تو آپ کی قبر کھلی جگہ میں ہوتی، حجرے میں نہ ہوتی۔”(بخاری: 1330، مسلم: 529)
ریاکاری (دکھاوا کرنا)
کسی بھی نیک عمل کی قبولیت کے لیے ضروری ہے کہ وہ ریاکاری اور دکھاوے سے مکمل طور پر پاک ہو۔
قرآن کی گواہی:
يُرَاءُونَ النَّاسَ وَلَا يَذْكُرُونَ اللَّـهَ إِلَّا قَلِيلًا ﴿١٤٢﴾ (النساء)
"وہ صرف لوگوں کو دکھاتے ہیں اور اللہ کو بہت کم یاد کرتے ہیں۔”
احادیث نبوی:
جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جو شخص دکھاوے کے لیے کوئی عمل کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن رسوا کرے گا، اور جو شخص نیک عمل لوگوں کی نظروں میں بڑا بننے کے لیے کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے چھپے عیبوں کو لوگوں کے سامنے ظاہر کر دے گا۔”
(بخاری، الرقاق، باب الریا والسمعہ: 6499، مسلم، الزھد: 2987)
حمود بن لبید رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"میں تمہارے بارے میں سب سے زیادہ شرکِ اصغر سے ڈرتا ہوں۔”
صحابہ نے پوچھا: "اے اللہ کے رسول! شرکِ اصغر کیا ہے؟”
فرمایا:
"ریا یعنی دکھاوا۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ فرمائے گا: جنہیں دکھانے کے لیے تم اعمال کرتے تھے، ان کے پاس جاؤ اور دیکھو، کیا وہ تمہیں اس کا بدلہ دے سکتے ہیں؟”
(مسند احمد: 24030، 5/428)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اس امت میں شرک (اصغر) چیونٹی کی چال سے زیادہ چھپا ہوا ہے۔”
صحابہ نے عرض کیا: "یا رسول اللہ! ہم اس سے کیسے بچیں؟”
فرمایا:
"یہ دعا پڑھو:
اللّٰهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ أَنْ أُشْرِكَ بِكَ وَأَنَا أَعْلَمُ وَأَسْتَغْفِرُكَ لِمَا لَا أَعْلَمُ
‘اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ میں جان بوجھ کر شرک کروں، اور معافی مانگتا ہوں اس شرک سے جو لا علمی میں ہو جائے۔'”
(ابن حبان، صحیح الجامع: 3/233)
ریاکاروں کا انجام:
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"قیامت کے دن سب سے پہلے تین آدمیوں کا حساب لیا جائے گا:
➊ شہید: اسے اللہ اپنی نعمتیں یاد دلائے گا، وہ ان کا اقرار کرے گا، اللہ فرمائے گا: ‘تو نے جھوٹ کہا، تو اس لیے لڑا کہ تجھے بہادر کہا جائے’۔ پھر اسے منہ کے بل آگ میں پھینکا جائے گا۔
➋ مالدار: وہ کہے گا کہ میں نے تیرا مال تیری رضا کے لیے خرچ کیا، اللہ فرمائے گا: ‘تو جھوٹا ہے، تو نے اس لیے خرچ کیا کہ تجھے سخی کہا جائے’۔ پھر اسے آگ میں پھینکا جائے گا۔
➌ عالم: کہے گا میں نے علم سیکھا اور سکھایا اور قرآن پڑھا، اللہ فرمائے گا: ‘تو نے اس لیے کیا کہ لوگ تجھے عالم کہیں’۔ پھر اسے بھی جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔”
(مسلم، الامارہ، باب من قاتل للریا والسمعہ استحق النار: 1905)
اللہ تعالیٰ کی رحمت سے نا امیدی
سخت ترین حالات میں بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت سے امید رکھنا لازم ہے۔
قرآن کی روشنی میں:
إِنَّهُ لَا يَيْأَسُ مِن رَّوْحِ اللَّـهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْكَافِرُونَ ﴿٨٧﴾ (یوسف)
"یقیناً اللہ کی رحمت سے صرف کافر ہی نا امید ہوتے ہیں۔”
حسنِ ظن اور دعا:
جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"تم میں سے کسی کو بھی موت اس حال میں نہ آئے کہ وہ اللہ کے بارے میں حسن ظن رکھتا ہو۔”
(مسلم، الجنۃ، باب الامر بحسن الظن باللہ عند الموت: 2877)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کثرت سے کی جانے والی دعا:
اللَّهُمَّ ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَى دِينِكَ
"اے اللہ! میرے دل کو اپنے دین پر ثابت رکھ۔”
صحابہ نے عرض کیا: "کیا آپ ہم پر بھی اندیشہ کرتے ہیں؟”
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"تمام دل اللہ رحمن کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں، جیسے چاہے وہ ان کو پھیر دیتا ہے۔”
(ابن ماجہ، الدعاء، باب دعاء رسول اللہ: 3834)
(قال الشيخ الألباني: صحيح، وقال الشيخ زبیر علی زئی: إسناده ضعيف)
اللہ کی رحمت کی امید کے ساتھ اس کا خوف بھی دل میں ہونا چاہیے، اپنے گناہوں کا اعتراف اور اعمال کو حقیر سمجھنا ایمان کا تقاضا ہے۔
تکبر کرنا
تکبر اور جنت:
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جس کے دل میں ذرہ برابر بھی تکبر ہو گا، وہ جنت میں داخل نہیں ہو گا۔”
ایک صحابی نے عرض کیا: "کپڑوں اور جوتوں کی خوبصورتی کو پسند کرنا کیا تکبر ہے؟”
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اللہ تعالیٰ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے، تکبر یہ ہے کہ انسان حق کو جھٹلائے اور لوگوں کو حقیر سمجھے۔”
(مسلم، الایمان، باب تحریم الکبر: 91)
اللہ کی بڑائی:
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"عظمت اللہ کی لنگی ہے اور تکبر اس کا اوڑھنا ہے، جو ان کو چھیننے کی کوشش کرے گا، اللہ اسے عذاب دے گا۔”
(مسلم، البر والصلہ، باب تحریم الکبر: 2620)
متکبر کا انجام:
"قیامت کے دن متکبرین کو چیونٹیوں کی صورت میں لایا جائے گا، ان پر ذلت چھا جائے گی، پھر انہیں جہنم کے قید خانے ‘بولس’ میں دھکیلا جائے گا، جہاں وہ ‘طینة الخبال’ یعنی جہنمیوں کی زخموں کی پیپ پئیں گے۔”
(ترمذی: 2492)
مزید احادیث تکبر پر:
ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
"تین قسم کے لوگ ایسے ہیں کہ اللہ ان سے نہ کلام کرے گا، نہ نظر رحمت سے دیکھے گا، نہ پاک کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے:
➊ تکبر سے کپڑا گھسیٹنے والا
➋ احسان جتا کر دینے والا
➌ جھوٹی قسم کے ذریعے مال بیچنے والا”
(مسلم، الایمان، باب غلظ تحریم اسبال الازار والمن بالعطیہ: 106)
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جس نے غرور سے اپنا لباس گھسیٹا، اللہ تعالیٰ اس کی طرف (رحمت سے) نہیں دیکھے گا۔”
(بخاری، اللباس، باب من جر ثوبہ من الخیلاء: 5791، مسلم: 2085)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
"ایک شخص اچھے لباس اور کنگھا کیے بالوں کے ساتھ غرور سے چل رہا تھا، اللہ نے اسے زمین میں دھنسا دیا، وہ قیامت تک دھنستا رہے گا۔”
(بخاری، اللباس، باب من جر ثوبہ من الخیلاء: 5789، مسلم: 2088)