قبرستان کی زمین پر مکان و کاروبار کرنا شرعاً ناجائز ہے
ماخوذ : فتاویٰ محمدیہ، جلد ۱، صفحہ ۵۶۰

سوال

ایک آدمی جو باقاعدگی سے نماز پڑھتا ہے اور داڑھی بھی رکھتا ہے، اس نے تقریباً ایک مرلہ زمین قیمت دے کر خریدی۔ اس زمین کے ساتھ ہی ایک پرانا قبرستان ہے، جو تقریباً ۳۰ سال سے لاوارث پڑا ہے۔ بارشوں اور قبروں پر مٹی نہ ڈالنے کی وجہ سے قبروں کی مٹی بہہ گئی اور ان کا نام و نشان مٹ چکا ہے۔ اس شخص نے ایک مرلہ جگہ خریدنے کے بعد جان بوجھ کر علم رکھنے کے باوجود قبرستان کی تقریباً تین مرلہ زمین اپنی جگہ میں شامل کر لی، اور بعد میں اس قبرستان کی زمین پر ایک عمارت تعمیر کر کے اس میں گندم پیسنے والی چکی اور دھان چھڑنے والی مشین نصب کر دی۔

مزید یہ کہ اس شخص نے اپنی رہائش کے لئے چار مرلہ جگہ خریدی اور اس کے ساتھ قبرستان کی تقریباً چار مرلہ زمین ملا کر ایک رہائشی مکان بنایا اور وہاں رہائش اختیار کی۔

سوال یہ ہے کہ: کیا اس شخص کا وہاں رہائش رکھنا اور کاروباری مشینری لگانا جائز ہے یا نہیں؟ براہِ کرم قرآن و حدیث کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں تاکہ عنداللہ ماجور ہوں۔

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مسلمانوں کے قبرستان کی زمین یا کسی مسلمان کی قبر پر بیٹھنا، اس پر رہائشی مکان تعمیر کرنا یا اسے ذاتی استعمال میں لانا بالکل جائز نہیں ہے، کیونکہ اس میں مسلمان میت کی توہین پائی جاتی ہے۔ جبکہ شریعت میں قبر کی تعظیم و احترام لازم ہے۔ اس کی وضاحت درج ذیل احادیث سے ہوتی ہے:

عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: «نَهَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُجَصَّصَ الْقَبْرُ، وَأَنْ يُقْعَدَ عَلَيْهِ، وَأَنْ يُبْنَى عَلَيْهِ»
(رواہ مسلم ج۱ص۳۱۲ ومشکوة باب دفن السبت ص۱۴۷)

حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے قبر کو چونے سے مضبوط کرنے، اس پر عمارت بنانے اور اس پر بیٹھنے سے منع فرمایا ہے۔

عَنْ أَبِي مَرْثَدٍ الْغَنَوِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تَجْلِسُوا عَلَى الْقُبُورِ، وَلَا تُصَلُّوا إِلَيْهَا»
(صحیح مسلم: ج۱ص۳۱۲)

حضرت ابو مرثد غنوی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قبروں پر نہ بیٹھو اور نہ ہی ان کی طرف رخ کر کے نماز پڑھو۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَأَنْ يَجْلِسَ أَحَدُكُمْ عَلَى جَمْرَةٍ فَتُحْرِقَ ثِيَابَهُ، فَتَخْلُصَ إِلَى جِلْدِهِ، خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَجْلِسَ عَلَى قَبْرٍ»
(صحیح مسلم، فصل النھی عن الجلوس علی القبور، ج۱ص۳۱۲)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر تم میں سے کوئی دہکتے انگارے پر بیٹھے جس سے اس کے کپڑے اور جسم جل جائیں تو یہ اس کے لئے اس بات سے بہتر ہے کہ وہ کسی قبر پر بیٹھے۔

وَعَن جابر قال نَھٰی رسول اللہ اَنْ تُجَصَّصَ القبُور وان یکتب علیھا وَاَن بینی علیھا وانہ توطاء وقال ابو عیسی ھذا حدیث حسن صَحِیْحٌ بَابُ مَا جَاءَ فِی کَرَاھِیة الوطی علی القبور والجلوس علیھا
(تحفة الاحوذی ج۲ص۱۵۴)

حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے قبروں کو پختہ بنانے، ان پر کتبے لگانے، ان پر رہائشی یا عبادت کے لئے عمارت بنانے اور ان پر چلنے سے منع فرمایا ہے۔ امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حاصلِ کلام

ان چاروں صحیح اور واضح احادیث سے صاف ظاہر ہے کہ:

◈ مسلمانوں کی قبروں پر مکان بنانا،
◈ ان پر خیمہ یا ڈھانچہ نصب کرنا،
◈ ان کو قبلہ بنانا،
◈ ان پر بیٹھنا یا ان پر چلنا،

یہ سب سختی سے منع ہے اور ناجائز عمل ہے۔

لہٰذا مذکورہ شخص کو لازم ہے کہ وہ اپنی اس سنگین غلطی سے رجوع کرے اور توبہ کرے، ورنہ وہ شریعت کی نظر میں تعزیر کا مستحق اور گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے