قبرستان کی جگہ پر مسجد کی توسیع کا شرعی حکم
ماخوذ: فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری، جلد نمبر 1، صفحہ نمبر 184

مسجد کے قریب قبرستان کا ہونا: شرعی نقطہ نظر

سوال کی وضاحت:

ایک پرانی اور شکستہ حالت میں موجود مسجد میں جمعہ کی نماز کے وقت تمام نمازیوں کے لیے جگہ ناکافی ہے، جس کی بنا پر ایک نئی مسجد تعمیر کرنے کا ارادہ کیا جا رہا ہے۔ مسجد کے ارد گرد کچھ قبریں ہیں جن میں بچے اور بڑے دونوں مدفون ہیں۔ یہ قبریں کچھ پرانی ہیں اور کچھ حالیہ، اور ان میں سے کچھ قبریں مسجد کی عمارت سے متصل ہیں۔

مسجد کو نمازیوں کی ضرورت کے مطابق وسیع کرنے کے لیے تجویز دی گئی ہے کہ مدفون قبروں کو مسجد کی توسیع میں شامل کر لیا جائے۔ اس اقدام سے مسجد کو دونوں اطراف سے کافی وسعت حاصل ہو سکتی ہے۔ ایک طرف کی قبریں شامل کرنے سے بعض پرانی قبریں کھودنی پڑیں گی جن کے متعلقین اب موجود نہیں۔

ایک اور تجویز یہ ہے کہ قبروں کو چھوڑ کر جو کھلی جگہ مسجد کے کمپاؤنڈ میں موجود ہے، وہاں ایک عمارت تعمیر کی جائے جسے تجارتی مقاصد کے لیے استعمال کر کے اس کی آمدنی سے مسجد کو فائدہ پہنچایا جا سکے۔

ورثاء کی رضا مندی سے قبریں مدفون طریقے پر مسجد میں شامل کرنے کا ارادہ ہے۔ اگر شریعت اس بات کی اجازت نہ دے تو متبادل تجویز یہ ہے کہ اس مقام پر دو منزلہ عمارت تعمیر کر دی جائے، تاہم بعض لوگ بارش کی زیادتی کی وجہ سے اوپری منزل کے نقصان کے خدشے پر دو منزلہ تعمیر کے خلاف ہیں۔

لہٰذا، اصل استفسار یہ ہے:

کیا مسجد کے اطراف کی قبریں شامل کر کے مسجد تعمیر کرنا شرعاً جائز ہے یا نہیں؟
ایسی مسجد میں نماز پڑھنے سے کیا قبروں کی طرف سجدہ شمار ہوگا؟
قبرستان میں نماز پڑھنا یا قبروں پر پاؤں رکھنا بڑا گناہ ہے، تو کیا ایسی تعمیر سے قبروں کی بے حرمتی شمار ہوگی؟

شرعی جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اسلامی تعلیمات کے مطابق، ایسی جگہ جہاں مسلمان مردے مدفون ہوں، وہاں:

نہ مسجد بنانا جائز ہے،
نہ کوئی اور عمارت تعمیر کرنا درست ہے،
نہ قبروں کو اکھیڑنا درست ہے۔

یہ سب اعمال مومن میت کی بے حرمتی کے زمرے میں آتے ہیں۔

قبر پر نماز پڑھنا اور
قبر کی طرف نماز پڑھنا بھی ناجائز ہے۔

احادیث مبارکہ سے دلائل:

صحیح مسلم:
قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تَجْلِسُوا عَلَى الْقُبُورِ، وَلَا تُصَلُّوا إِلَيْهَا أَوْ عَلَيْهَا»
رواه مسلم (كتاب الجنائز، باب النهى عن الجلوس على القبر والصلاة عليه، (972) 2/668)

صحیح بخاری:
قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ أُولَئِكَ، إِذَا كَانَ فِيهِمُ الرَّجُلُ الصَّالِحُ، فَمَاتَ، بَنَوْا عَلَى قَبْرِهِ مَسْجِدًا، وَصَوَّرُوا فِيهِ تِلْكَ الصُّوَرَ، أُولَئِكِ شِرَارُ الْخَلْقِ عِنْدَ اللهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ»
رواه البخارى (كتاب الصلاة، باب هل تنبش قبور مشركى الجاهلية، 1/110)

صحیح بخاری:
قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَعَنَ اللهُ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى، اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ”
رواه البخارى (كتاب الصلاة، باب هل تنبش قبور مشركى الجاهلية، 1/110)

دیگر دلائل:

قبر پر عمارت بنانا خواہ تعظیم کی نیت سے ہو یا کسی دینی یا دنیاوی ضرورت کے تحت ہو، دونوں صورتوں میں ناجائز ہے۔

امام بخاریؒ نے "باب هل ينبش قبور مشركى الجاهلية” قائم کیا ہے، جس کے تحت فتح الباری (1/524) میں درج ہے:
أَيْ دُونَ غَيْرِهَا مِنْ قُبُورِ الْأَنْبِيَاءِ وَأَتْبَاعِهِمْ لِمَا فِي ذَلِكَ مِنَ الْإِهَانَةِ لَهُمْ، بِخِلَافِ الْمُشْرِكِينَ، فَإِنَّهُمْ لَا حُرْمَةَ لَهُمْ

نتیجہ:

❖ قبروں کو مسجد میں شامل کر کے اس جگہ مسجد بنانا شرعاً ناجائز ہے۔
❖ ایسی جگہ پر نماز پڑھنے سے قبروں کی طرف سجدہ ہونے کا اندیشہ ہے، جو سخت ممنوع ہے۔
❖ ایسی تعمیر سے قبروں کی بے حرمتی لازم آتی ہے، جو شرعاً بڑا گناہ ہے۔

فقط والله أعلم وعلمه أتم

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1