قافلوں مال لانے والوں کو منڈی پہنچنے سے پہلے جا ملنا اور ذخیرہ اندوزی کرنا جائز نہیں
➊ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا تلقوا الركبان
”سامانِ تجارت لے کر آنے والے قافلوں کو آ گے جا کر نہ ملو ۔“
[بخاري: 2158 ، كتاب البيوع: باب هل يبيع حاضر لباد ، مسلم: 1521 ، ابو داود: 3439 ، ابن ماجة: 2177 ، أحمد: 368/1]
➋ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا تلقـوا الـجلب فمن تلقى فاشترى منه فإذا أتـي سـيـده السوق فهو بالخيار
”باہر سے شہر میں غلہ لانے والوں کو آگے جا کر نہ ملو ، جس کسی سے راستے ہی میں ملاقات کر کے اس کا سامان خرید لیا گیا تو منڈی میں پہنچنے کے بعد مال کے مالک کو اختیار ہے (چاہے سودا باقی رکھے اور چاہے تو منسوخ کر دے)۔“
[مسلم: 1519 ، كتاب البيوع: باب تحريم تلقى الجلب ، أحمد: 487/2 ، أبو داود: 3437 ، ترمذي: 1221 ، نسائي: 257/7 ، ابن ماجة: 2178]
اس کی صورت یہ ہے کہ شہری آدمی بدوی کو شہر کی مارکیٹ میں پہنچنے سے پہلے پہلے راستے ہی میں جا ملے تا کہ بھاؤ کے متعلق غلط بیانی کر کے اس سے سامان سستے داموں خرید لے اور اس کی اصل قیمت سے کم قیمت پر اس سے حاصل کر لے۔ منع کرنے سے مقصود یہ ہے کہ فروخت کرنے والا دھوکہ دہی اور ضرر رسانی سے بچ جائے۔
(جمہور ) قافلوں کو جا کر ملنا جائز نہیں۔
(ابو حنیفہؒ) یہ عمل جائز ہے (گذشتہ احادیث اس بات کا رد کرتی ہیں)۔
[نيل الأوطار: 539/3]
◈ حدیث کے یہ الفاظ :
فصاحبه بالخيار إذا ورد السوق
بتلاتے ہیں کہ یہ بیع (فاسد نہیں ) بلکہ صحیح ہے۔
[تحفة الأحوذى: 467/4 ، نيل الأوطار: 539/3]
➊ حضرت معمر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا يحتكر إلا خاطئ
”خطا کار کے سوا ذخیرہ اندوزی کوئی نہیں کرتا۔“
[مسلم: 1605 ، كتاب المساقاة: باب تحريم الأحتكار فى الأقوات ، ابو داود: 3447 ، ترمذي: 1267 ، ابن ماجة: 2154 ، أحمد: 400/6 ، دارمي: 248/2]
➋ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے چالیس راتیں غلے کو ذخیرہ کیا تو وہ اللہ تعالٰی سے بری ہو گیا اور اللہ تعالیٰ اس سے بری ہو گئے ۔“
[ضعيف: غاية المرام: 324 ، أحمد: 33/2 ، حاكم: 11/2 ، مجمع الزوائد: 100/4 ، نصب الراية: 262/4]
(ابن حجرؒ ) شرعی احتکار یہ ہے کہ غلہ کو روک لینا ، فروخت نہ کرنا ، اس انتظار میں کہ نرخ چڑھیں۔ عوام کو اس کی شدید ضرورت ہو جبکہ کرنے والا اس سے مستغنی ہو۔
[فتح البارى: 81/5]
(نوویؒ) جس احتکار کو حرام کیا گیا ہے وہ خوراک کے ساتھ خاص ہے اور وہ یہ ہے کہ کوئی شخص غلے کو مہنگائی کے وقت میں خرید لے اور اسے فروخت نہ کرے بلکہ ذخیرہ کر لے تا کہ اس کے نرخ مزید بڑھ جائیں۔ اگر کوئی شخص اسے (غلے کو ) ان ایام میں خرید کر ذخیرہ کرے جن میں یہ سستا ہو یا اگر کوئی اسے مہنگائی کے وقت میں اپنی کھانے کی ضرورت پوری کرنے کے لیے خریدتا ہے یا اسے فی الفور بیچنے کے لیے خریدتا ہے تو یہ احتکار نہیں ہے اور نہ ہی اس میں کوئی حرمت ہے۔
[شرح مسلم: 43/11]