قاضی کی صفات: عدل، تقویٰ اور غیر جانبداری
تحریر: عمران ایوب لاہوری

جو لوگوں کے مال سے بچنے والا ہو ، فیصلے میں عدل کرے اور مساوات کے اصول پر فیصلہ کرے
➊ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :
يَا دَاوُودُ إِنَّا جَعَلْنَاكَ خَلِيفَةً فِي الْأَرْضِ فَاحْكُم بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوَىٰ فَيُضِلَّكَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَضِلُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ بِمَا نَسُوا يَوْمَ الْحِسَابِ [ص: 26]
”اے داود! ہم نے تمہیں زمین میں خلیفہ بنا دیا تم لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کرو اور اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی نہ کرو ورنہ وہ تمہیں اللہ کی راہ سے بھٹکا دیں گی ، یقیناً جو لوگ اللہ کی راہ سے بھٹک جاتے ہیں ان کے لیے سخت عذاب ہے اس لیے کہ انہوں نے حساب کے دن کو بھلا دیا ۔ “
یقیناً جو حکمران یا قاضی لوگوں کے اموال سے اجتناب نہیں کرے گا وہ رشوت لینے سے بھی گریز نہیں کرے گا اور اس وجہ سے حق کے مطابق فیصلہ نہیں کر سکے گا ۔ اسی طرح غیر عادل قاضی بھی حق کو جانتے ہوئے اسے چھوڑ دے گا ۔ تو پھر یہ دان قاضیوں میں سے ہی ہیں جنہیں جہنم کی وعید سنائی گئی ہے کہ :
رجل عرف الحق و جار فى الحكم
” (جہنم میں جانے والا ایک قاضی وہ ہے ) جس نے حق کو جانتے ہوئے فیصلے میں ظلم کیا ۔“
(ابن تیمیهؒ) علماء نے اجماع کیا ہے کہ محض خواہش کے ساتھ فیصلہ کرنا یا فتویٰ دینا حرام ہے ۔
[أخبار العلمية فى الاختيارات الفقهية: ص / 480]
(شاہ ولی اللهؒ ) منصب قضا پر متمکن ہونے والا شخص ایسا عادل ہو جو ظلم کرنے یا کسی بھی طرف مائل ہونے سے بری ہوا اور ایسا عالم ہو جو حق کو پہچانتا ہو بالخصوص مسائلِ قضا اور اس کے پنہاں دقائق سے اچھی طرح واقف ہو ۔ اس کے علاوہ مصلحت کے وجود کا تصور بھی ممکن نہیں ۔
[حجة الله البالغة: 166/2]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے