قاضی کا فیصلہ صرف ظاہری طور پر نافذ ہو گا
حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إنما أنا بشر وإنكم تختصمون إلى ولعل بعضكم يكون ألحن بحجته من بعض فأقضى بنحو ما أسمع فمن قضيت له من حق أخيه شيئا فلا يأخذ فإنما أقطع له قطعة من النار
”میں تو صرف ایک انسان ہوں تم لوگ اپنے جھگڑے میرے پاس لے کر آتے ہو اور تم میں سے بعض اپنے دلائل بڑی خوبی و چرب زبانی سے بیان کرتا ہے تو میں نے جو کچھ سنا ہوتا ہے اسی کے مطابق اس کے حق میں فیصلہ کر دیتا ہوں پس جسے اس کے بھائی کے حق میں سے کوئی چیز دوں تو میں اس کے لیے آگ کا ٹکڑا کاٹ کر دے رہا ہوں ۔“
[بخاري: 2458 ، 2680 ، 6967 ، كتاب المظالم والغصب: باب إثم من خاصم فى باطل وهو يعلمه ، مسلم: 1713 ، ابو داود: 3583 ، ترمذي: 1339 ، نسائي: 233/8 ، ابن ماجة: 2317 ، احمد: 203/6 ، حميدي: 296 ، ابن حبان: 5070 ، دار قطني: 239/4 ، بيهقي: 149/10]
(نوویؒ) یہ سمجھنا کہ حاکم کا حکم ظاہر و باطن کو حلال کر دیتا ہے اس صحیح حدیث اور اجماع کے خلاف ہے ۔
[شرح مسلم: 247/6]
(شوکانیؒ) حاکم کا فیصلہ حرام باطن کو حلال نہیں کر سکتا ۔
[نيل الأوطار: 373/5]
(شافعیؒ) حاکم کا حکم حرام کو حلال نہیں کرتا اس پر اجماع ہے ۔
(ابن حجرؒ ) یہ حدیث ان لوگوں کی دلیل ہے جو کہتے ہیں کہ حاکم کا حکم صرف ظاہری طور پر ہی نافذ ہو گا اور اس کا کوئی مانع بھی نہیں ۔
(جمہور ، قاضی ابو یوسفؒ ) اس طرح باطنی طور پر حکم نافذ نہیں ہو گا کہ اس سے حلال حرام ہو جائے ۔
(ابن حزمؒ ) قاضی کا حکم اس چیز کو حلال نہیں کر سکتا جو فیصلے سے پہلے (من جانب اللہ ) حرام ہو اور نہ اس چیز کو حرام کر سکتا ہے جو فیصلے سے پہلے حلال ہو ۔
(ابو حنیفہؒ ) حاکم کا حکم ظاہری اور باطنی ہر لحاظ سے نافذ ہو گا (احناف کے مؤقف کو سمجھنے کے لیے درج ذیل مثالیں دیکھیے ):
➊ اگر دو جھوٹے گواہ گواہی دیں کہ فلاں شخص نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ہے اور حاکم اس کے مطابق فیصلہ کر دے تو جدائی لازم ہو جائے گی اور گواہوں میں سے ہر ایک کے لیے اُس عورت سے نکاح جائز ہو گا (خواہ اس کے حقیقی خاوند نے اسے طلاق نہ بھی دی ہو )۔
➋ اسی طرح اگر دو جھوٹے گواہ گواہی دیں کہ فلاں شخص نے اپنی بیٹی کا نکاح اس کی رضا مندی سے فلاں شخص کے ساتھ کر دیا ہے اور حاکم اس کے مطابق فیصلہ کر دے تو اس عورت سے وطی وہم بستری (شرعی طور پر بھی ) حلال ہو جائے گی ۔ (باطنی طور پر نافذ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ خواہ فی الحقیقت کوئی چیز حرام ہو لیکن اگر حاکم اسے جائز قرار دے دے تو وہ چیز شرعی طور پر بھی حلال ہو جائے گی یعنی اسے اختیار کر لینے کی صورت میں کوئی سزا و مواخذہ نہیں ہو گا اور یقیناََ یہ بات سراسر کتاب و سنت کی واضح نصوص کے خلاف ہے) ۔
[شرح مسلم للنووى: 347/6 ، نيل الأوطار: 373/5 ، فتح الباري: 80/15 ، شرح معاني الآثار: 155/4 ، المحلى بالآثار: 516/8 ، الروضة الندية: 550/2 ، قفو الأثر: 1842/5 ، سبل السلام: 1921/4]
(راجح) حدیث کے مخالف ہر موقف باطل ہے اور اس مسئلے میں امام ابو حنیفہؒ کا موقف حدیث کے خلاف ہے ۔
جس کے حق میں فیصلہ کیا گیا ہے اس کے لیے وہ چیز حلال نہیں ہو گی إلا کہ فیصلہ حقیقت پر مبنی ہو
➊ ارشاد باری تعالی ہے کہ :
وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِهَا إِلَى الْحُكَّامِ لِتَأْكُلُوا فَرِيقًا مِّنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ [البقرة: 188]
”ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھایا کرو اور نہ حاکموں کو رشوت پہنچا کہ کسی کا کچھ مال ظلم و ستم سے اپنا کر لیا کرو حالانکہ تم جانتے ہو ۔“
➋ حدیث نبوی ہے کہ :
فمن قضيت له بشيئ من مال أخيه فلا يأخذه فإنما أقطع له قطعة من النار
”پس جسے میں اس کے بھائی کے حق میں سے کوئی چیز دوں تو وہ اسے مت لے کیونکہ میں اس کے لیے آگ کا ٹکڑا کاٹ کر دے رہا ہوں ۔“
[بخارى: 6967 ، كتاب الحيل: باب إذا غصب جارية قزعم أنها ماتت فقضى بقيمته ، مسلم: 3231 ، نسائي: 3506 ، احمد: 25286 ، موطا: 1205]