قاضی اگر نص کے خلاف فیصلہ دے، تو اس کا کیا حکم ہے؟
ماخوذ: فتاوی امن پوری از شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری

سوال :

قاضی اگر نص کے خلاف فیصلہ دے، تو اس کا کیا حکم ہے؟

جواب :

ہر شرعی فیصلہ کتاب وسنت اور اجماع امت کی روشنی میں ہوگا۔ اگر قاضی کتاب وسنت کی نص کے خلاف فیصلہ دے، تو وہ فیصلہ مردود ہے، ہر تنازع کو قرآن وحدیث
کی طرف لوٹانا واجب ہے۔
❀ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (728 ھ) فرماتے ہیں :
إن الحاكم متى خالف نصا أو إجماعا نقض حكمه باتفاق الأئمة .
”ائمہ کا اتفاق ہے کہ اگر حاکم نص یا اجماع کی مخالفت کرے، تو اس کا فیصلہ کالعدم قرار پائے گا۔“
(مجموع الفتاوى : 202/27)
❀ علامه ابن ابی العز حنفی رحمہ اللہ (792ھ) فرماتے ہیں :
من المحال أن لا يحصل الشفاء والهدى والعلم واليقين من كتاب الله وكلام رسوله، ويحصل من كلام هؤلاء المتحيرين، بل الواجب أن يجعل ما قاله الله ورسوله هو الأصل، ويتدبر معناه ويعقله، ويعرف برهانه ودليله؛ إما العقلي وإما الخبري السمعي، ويعرف دلالته على هذا وهذا، ويجعل أقوال الناس التى توافقه وتخالفه متشابهة مجملة، فيقال لأصحابها : هذه الألفاظ تحتمل كذا وكذا، فإن أرادوا بها ما يوافق خبر الرسول قبل ، وإن أرادوا بها ما يخالفه رد .
”ایسا ممکن نہیں کہ کتاب اللہ اور کلام رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے شفا، ہدایت اور علم و یقین حاصل نہ ہو اور حیران وسرگرداں لوگوں کی کلام سے ہو جائے ، مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اللہ ورسول کے فرمان کو اصل بنائے ، اس کے معنی میں غور وفکر کرے، اسے سمجھے ، اس کی عقلی ، خبری یا سمعی برہان پہنچانے ، اس کی دلالت ہر زاویے سے سمجھے اور انسانوں کی بعض آراء وحی کے موافق ہوتی ہیں، بعض مخالف ہوتی ہیں ، بعض متشابہ اور مجمل۔ ان کی آراء میں ان احتمالات کو سامنے رکھ کر فیصلہ کرے، ان کے قائلین کو بتائے کہ آپ کی فلاں بات میں فلاں فلاں احتمال ہیں، اگر ان کی مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عالم کی حدیث کے موافق ہے تو قبول وگر نہ رد کر دے۔“
(شرح الطحاوية، ص 167)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1