سوال
کلمہ "سبحان اللہ” تنزیہہ کے لیے ہے، لیکن موجودہ دور میں قاریوں کی تلاوت اور واعظین کے اندازِ قراءت پر بار بار "سبحان اللہ” کہنا رائج ہے۔ کیا قرآن و حدیث اور سلف صالحین کے عمل سے قاری یا واعظ کی تلاوت پر "سبحان اللہ” کہنا ثابت ہے؟ وضاحت فرمائیں۔
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
◈ بلاشبہ کلمہ تسبیح "سبحان اللہ” اللہ تعالیٰ کی تنزیہہ (یعنی اللہ کو ہر نقص و عیب سے پاک قرار دینا) کے لیے ہے۔
◈ لیکن یہ صرف تنزیہہ کے مواقع تک محدود نہیں بلکہ تعجب وغیرہ کے مواقع پر بھی رسول اللہ ﷺ کی احادیث سے اس کلمے کا استعمال ثابت ہے۔
نبی کریم ﷺ سے "سبحان اللہ” کے مختلف مواقع پر استعمال کا ثبوت
◈ ایک موقع پر نبی کریم ﷺ نے ایک حائضہ عورت کو شوار یا تہبند کے نیچے لنگوٹی باندھنے کا حکم دیا۔
◈ اس عورت نے سوال کیا کہ یہ کیسے باندھوں؟
◈ تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"سبحان اللہ! لنگوٹی باندھو”
◈ پھر حضرت عائشہؓ نے اس عورت کو اپنی طرف کھینچ کر لنگوٹی باندھنے کا طریقہ سمجھا دیا۔
صحیح البخاری، ج1، باب: إذا تطهرت المرأة من المحيض، وكيف تغسل الخ، ص 45
عملِ سلف اور نبی کریم ﷺ کے زمانے میں "سبحان اللہ” کا بطور تحسین استعمال
◈ نبی کریم ﷺ اور آپ کے صحابہؓ کے دور میں ایسا کوئی رواج نہ تھا کہ قراء یا واعظ کی تلاوت پر "سبحان اللہ” کہہ کر اظہارِ تحسین کیا جائے۔
◈ اس لیے موجودہ دور میں تلاوتِ قرآن یا واعظ کے اندازِ قراءت پر "سبحان اللہ” کہنے کا جو رواج ہے، وہ نہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے اور نہ سلف صالحین کے تعامل سے۔
حکم
◈ لہٰذا اس طرح کا استعمال بدعت ہے۔
◈ اور بدعت سے اجتناب ضروری ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب