قاری کی تلاوت پر سبحان اللہ کہنا: سنت یا بدعت؟
ماخوذ : فتاویٰ محمدیہ، جلد 1، صفحہ 118

سوال

کلمہ "سبحان اللہ” تنزیہہ کے لیے ہے، لیکن موجودہ دور میں قاریوں کی تلاوت اور واعظین کے اندازِ قراءت پر بار بار "سبحان اللہ” کہنا رائج ہے۔ کیا قرآن و حدیث اور سلف صالحین کے عمل سے قاری یا واعظ کی تلاوت پر "سبحان اللہ” کہنا ثابت ہے؟ وضاحت فرمائیں۔

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

◈ بلاشبہ کلمہ تسبیح "سبحان اللہ” اللہ تعالیٰ کی تنزیہہ (یعنی اللہ کو ہر نقص و عیب سے پاک قرار دینا) کے لیے ہے۔
◈ لیکن یہ صرف تنزیہہ کے مواقع تک محدود نہیں بلکہ تعجب وغیرہ کے مواقع پر بھی رسول اللہ ﷺ کی احادیث سے اس کلمے کا استعمال ثابت ہے۔

نبی کریم ﷺ سے "سبحان اللہ” کے مختلف مواقع پر استعمال کا ثبوت

◈ ایک موقع پر نبی کریم ﷺ نے ایک حائضہ عورت کو شوار یا تہبند کے نیچے لنگوٹی باندھنے کا حکم دیا۔
◈ اس عورت نے سوال کیا کہ یہ کیسے باندھوں؟
◈ تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

"سبحان اللہ! لنگوٹی باندھو”

◈ پھر حضرت عائشہؓ نے اس عورت کو اپنی طرف کھینچ کر لنگوٹی باندھنے کا طریقہ سمجھا دیا۔

صحیح البخاری، ج1، باب: إذا تطهرت المرأة من المحيض، وكيف تغسل الخ، ص 45

عملِ سلف اور نبی کریم ﷺ کے زمانے میں "سبحان اللہ” کا بطور تحسین استعمال

◈ نبی کریم ﷺ اور آپ کے صحابہؓ کے دور میں ایسا کوئی رواج نہ تھا کہ قراء یا واعظ کی تلاوت پر "سبحان اللہ” کہہ کر اظہارِ تحسین کیا جائے۔
◈ اس لیے موجودہ دور میں تلاوتِ قرآن یا واعظ کے اندازِ قراءت پر "سبحان اللہ” کہنے کا جو رواج ہے، وہ نہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے اور نہ سلف صالحین کے تعامل سے۔

حکم

◈ لہٰذا اس طرح کا استعمال بدعت ہے۔
◈ اور بدعت سے اجتناب ضروری ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے