ریاست کے حق پر اعتراض: ایک نظریاتی اور آئینی مسئلہ
کچھ لوگ اصولی بنیادوں پر یہ سمجھتے ہیں کہ ریاست کو کسی شخص یا گروہ کو غیر مسلم قرار دینے کا حق نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن موجودہ حالات میں، یہ دلیل زیادہ تر قادیانیوں اور ان کے حامی حلقوں کی جانب سے استعمال ہو رہی ہے۔ وہ لوگ جو قادیانیوں کو غیر مسلم نہیں مانتے اور ختم نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملے کو کوئی مسئلہ نہیں سمجھتے، درحقیقت بعض اوقات تو رسالت یا خدا کے وجود کو بھی اہمیت نہیں دیتے۔ اب یہ لوگ ایک منظم انداز میں اس مسئلے کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جو پہلے ہی آئینی طور پر طے شدہ اور متفقہ ہے۔ اس ترمیم کے پیچھے عوام، اہل علم اور تمام دینی حلقوں کی حمایت موجود ہے، اور یہ کوشش ایک پنڈورا باکس کھولنے کے مترادف ہے۔
ایک منظم سازش اور ممکنہ خطرات
یہ ایک منظم اور سوچی سمجھی کوشش ہے جس میں آگ سے کھیلنے کی مانند خطرات ہیں۔ ان لوگوں کو شاید اس بات کا اندازہ نہیں ہے کہ اس کے نتیجے میں شدید ردعمل سامنے آ سکتا ہے۔ اس قسم کی بحث کا تمام تر نقصان قادیانی افراد کو اٹھانا پڑے گا، کیونکہ جب ردعمل پیدا ہوگا تو یہ نام نہاد لبرل اور سیکولر افراد خاموشی سے پیچھے ہٹ جائیں گے، جبکہ عام قادیانی حضرات نشانہ بن سکتے ہیں۔
ریاست کے حق پر اعتراض اور اس کی کمزوری
ریاست کے حق کو چیلنج کرنے کی یہ دلیل حیران کن ہے۔ جہاں دیگر معاملات میں ہر اختیار ریاست کے سپرد کر دیا جاتا ہے، یہاں چونکہ ریاست نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا ہے، اس لیے اس پر اعتراض کیا جا رہا ہے۔ ماضی میں، قادیانیوں کے مسئلے میں ریاست نے عوامی منتخب اسمبلی میں کئی دنوں تک بحث کے بعد ایک متفقہ ترمیم منظور کی تھی۔ یہ ایک آئینی ترمیم تھی جو مکمل جمہوری عمل کے تحت ہوئی، اور اس میں پاکستان کی تاریخ کی قدآور شخصیات شامل تھیں۔
تاریخی اور قانونی پس منظر
اس ترمیم کی منظوری اُس وقت ہوئی جب ملک میں ضیاء الحق کا دور حکومت بھی نہیں تھا، یعنی کسی قسم کے مذہبی دباؤ کا عنصر شامل نہیں تھا۔ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو جیسے سیکولر اور لبرل لیڈر کی قیادت میں یہ ترمیم پاس ہوئی۔ اس وقت کے حالات، دلائل، قانونی اور تاریخی بنیادیں سب اس مسئلے کو آئینی طور پر درست ثابت کرتے ہیں۔ لہذا، اس ترمیم کے حوالے سے اب سوال اٹھانا دراصل ایک نئے فتنہ کو ہوا دینے کے مترادف ہے۔
مخالفین کے لئے تنبیہ
اگر کوئی شخص قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے مخالف ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ قادیانیوں کو مسلمان مانتا ہے، اور بالواسطہ طور پر ختم نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کے عقیدے کو تسلیم نہیں کرتا۔ یہ ایک منطقی نتیجہ ہے، اور اگر ایسا ہے تو پھر اسے یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالف کیمپ میں شامل ہو رہا ہے اور جھوٹے نبی کے پیروکاروں کی حمایت کر رہا ہے۔ ایسے افراد دینی حلقوں کی دہائیوں کی محنت اور عوامی احتجاج کی سالوں کی کوششوں کو ایک لمحے میں ضائع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
دینی حلقوں کا عزم
اہل ایمان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کا دفاع کریں۔ اگر کوئی اس ترمیم کو ختم کرنے کی کوشش کرے گا تو یقیناً اس کے خلاف بھرپور ردعمل سامنے آئے گا۔ ہم آخری دم تک، اپنی جان و مال، تمام صلاحیتیں اور قوتیں اس مسئلے کے دفاع میں صرف کریں گے۔ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی آئینی ترمیم کو ختم کرنے کی کوئی گنجائش نہیں، اور نہ ہی ہماری زندگیوں میں اس کا امکان ہے۔
قادیانیوں کے حقوق اور آئینی حدود
اگر کوئی قادیانیوں کے حقوق کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہے، تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ پہلے اس بات کو تسلیم کرے کہ قادیانی غیر مسلم ہیں اور آئینی ترمیم کو قبول کرتا ہے۔ بصورت دیگر، وہ خود کو قادیانی حامیوں کے گروہ کا ایک حصہ سمجھا جائے گا۔ یہ بحث ایک واضح لکیر کھینچ چکی ہے جو قادیانیوں نے خود کھینچی ہے۔ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کا معاملہ ایک ایسی سرحد ہے جو دو گروہوں کو ایک دوسرے سے جدا کرتی ہے۔ منافقت کے پردے میں قادیانیوں کا ساتھ دینا اور دینی حلقوں سے عزت و تکریم کی امید رکھنا ایک غیر منطقی توقع ہے۔
نتیجہ
لکیر کھینچ دی گئی ہے، اور اب یہ معاملہ دو ٹوک ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کے معاملے میں کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔ جو بھی اس آئینی ترمیم کے خلاف ہے، اسے کھل کر اپنے موقف کا اظہار کرنا ہوگا، اور اگر وہ قادیانیوں کے حقوق کی بات کرتا ہے، تو اسے پہلے اپنے عقیدے اور آئینی موقف کو واضح کرنا ہوگا۔