قائدِاعظم محمد علی جناح کی 11 اگست 1947 کی تقریر اور سیکولرزم
قائدِاعظم محمد علی جناح کی 11 اگست 1947 کی تقریر کو سیکولرزم کے حق میں دلیل کے طور پر پیش کرنے کا جو شور مچا ہوا ہے، اس پر بات کرتے ہوئے مجھے علامہ اقبال کا ایک واقعہ یاد آیا۔ ایک مجلس میں جب آغا حشر کاشمیری کو بلانے کے لیے شور مچا تو اقبال نے فی البدیہہ شعر کہا:
"شور ایسا ہے قصابوں کی ہو جیسے بارات،
آئیے لاہور کی یہ بزم ماتم دیکھیے”
آج بھی گیارہ اگست کی تقریر پر ایسا ہی شور برپا ہے: "سیکولرزم، ہائے سیکولرزم، وائے سیکولرزم!” لیکن سوال یہ ہے کہ قائدِاعظم کی اس تقریر سے سیکولرزم کا مطلب کیسے نکالا جا رہا ہے؟
ریاست کی نظریاتی شناخت اور قائدِاعظم کی تقاریر
یہ بات پہلے بھی واضح کی جا چکی ہے کہ پاکستان کی نظریاتی شناخت قائدِاعظم کی ذاتی خواہشات پر نہیں بلکہ قرآن و سنت یا عوامی فیصلہ پر مبنی ہوگی:
- مذہبی بیانیہ: اس میں حتمی حکم قرآن و سنت کا ہوگا، اور کسی شخصیت کی رائے قرآن و سنت سے بالاتر نہیں ہو سکتی۔
- سیکولر بیانیہ: اس میں عوام فیصلہ کریں گے کہ کس نظریے کے تحت زندگی گزارنی ہے۔
قائدِاعظم کی تقاریر کا مطالعہ ضرور ہونا چاہیے تاکہ یہ سمجھا جا سکے کہ ان کا رجحان کیا تھا، لیکن صرف 11 اگست کی تقریر کو بنیاد بنا کر نتیجہ اخذ کرنا درست نہیں۔
کیا قائدِاعظم کی گیارہ اگست کی تقریر سیکولرزم کی عکاس ہے؟
قائدِاعظم نے دستور ساز اسمبلی میں کہا:
"آپ آزاد ہیں، آپ آزاد ہیں اپنی عبادت گاہوں میں جانے کے لیے۔ ریاست کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں کہ آپ کس مذہب، ذات یا نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔”
"عنقریب آپ دیکھیں گے کہ یہاں نہ ہندو ہندو رہیں گے، نہ مسلمان مسلمان۔ دین کے اعتبار سے نہیں بلکہ سیاسی حیثیت میں۔”
یہ دو اقتباسات ہی وہ بنیاد ہیں جن پر سیکولرزم کی عمارت کھڑی کی جا رہی ہے۔ لیکن اگر اسلام کی روح کو دیکھا جائے تو یہ بیانات بالکل اسلامی اصولوں کے مطابق ہیں، نہ کہ سیکولرزم کے۔
- کیا اسلام کہتا ہے کہ ہندوؤں کو ان کے مندروں میں جانے سے روکا جائے؟
- کیا اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کے حقوق سلب کرنے کا کوئی تصور ہے؟
اسلامی ریاست میں اقلیتوں کی دو اقسام:
- ذمی: وہ غیر مسلم جو جنگ کے نتیجے میں مفتوح بنے ہوں۔
- معاہد: وہ غیر مسلم جو معاہدے کے تحت ریاست کے شہری ہوں۔
پاکستان کے غیر مسلم "معاہد” کی حیثیت رکھتے ہیں، جنہیں اسلام مکمل تحفظ اور حقوق دیتا ہے۔ قائدِاعظم نے جو بات کہی وہ اسی اصول کے تحت تھی، جسے میثاقِ مدینہ سے بھی سمجھا جا سکتا ہے۔
میثاقِ مدینہ اور قائدِاعظم کی گیارہ اگست کی تقریر
میثاقِ مدینہ میں واضح طور پر کہا گیا:
"یہودی اپنے دین پر رہیں گے اور مسلمان اپنے دین پر۔”
"سیاسی حیثیت سے یہودی بھی امت کا حصہ ہوں گے۔”
قائدِاعظم کی تقریر میں بھی یہی بات کہی گئی کہ سیاسی اعتبار سے ہندو، مسلمان یا دیگر اقلیتیں برابر ہوں گی، جبکہ ہر شخص کا مذہب اس کا ذاتی معاملہ ہوگا۔
ہیکٹر بولیتھو نے اپنی کتاب Jinnah: Creator of Pakistan میں گیارہ اگست کی تقریر کے بارے میں لکھا:
"الفاظ جناح کے تھے، لیکن خیالات رسول اللہ ﷺ کے۔”
قائدِاعظم کے دیگر بیانات اور سیکولرزم کا ابطال
کیا گیارہ اگست کی تقریر قائدِاعظم کی واحد تقریر ہے جسے بنیاد بنایا جا سکتا ہے؟ ہرگز نہیں! ان کی درجنوں تقاریر موجود ہیں جن میں وہ اسلامی اصولوں کا ذکر کرتے ہیں۔
فروری 1948 میں سبی دربار میں خطاب:
"یہ میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات ان سنہری اصولوں پر عمل کرنے میں ہے جو ہمارے عظیم قانون ساز پیغمبرِ اسلام ﷺ نے دیے۔ آئیے ہم اپنی جمہوریت کی بنیادیں اسلامی تصورات اور اصولوں پر رکھیں۔”
یکم جولائی 1948 کو سٹیٹ بینک کے افتتاح پر:
"سٹیٹ بینک اسلامی اصولوں پر مبنی اقتصادی نظام وضع کرے گا، اور میں اشتیاق سے دیکھتا رہوں گا کہ بنکاری کے ایسے طریقے کیسے اپنائے جاتے ہیں جو اسلامی معیشت سے مطابقت رکھتے ہوں۔”
امریکی عوام کے نام پیغام:
"پاکستان کا آئین جمہوری ہوگا، اور اس کی بنیاد اسلام کے اہم اصولوں پر ہوگی۔”
نتیجہ: سیکولرزم یا اسلامی فلاحی ریاست؟
قائدِاعظم کی تقاریر کو سیاق و سباق کے ساتھ پڑھنے سے واضح ہو جاتا ہے کہ وہ پاکستان کو ایک ایسی ریاست بنانا چاہتے تھے جو اسلامی اصولوں کے مطابق ہو، جہاں اقلیتوں کو تحفظ حاصل ہو، لیکن ریاست کی بنیاد اسلامی تعلیمات پر ہو۔ گیارہ اگست کی تقریر کو سیکولرزم کے حق میں پیش کرنا فکری بددیانتی کے سوا کچھ نہیں۔