سوال:
ایک شخص کپڑے کی فیکٹری میں کام کرتا ہے اور اس نے اپنے جنرل مینیجر سے دریافت کیا کہ کیا وہ فیکٹری سے ذاتی ہلکی پھلکی ضروریات کے لیے کپڑے کا کوئی ٹکڑا لے سکتا ہے، جیسے ماسک بنانے یا چہرے کے رومال کے طور پر استعمال کرنے کے لیے؟ مینیجر نے جواب دیا کہ ہاں، ہمارا اتنا حق بنتا ہے کہ ہم لے سکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ملازم مینیجر کے کہنے پر یہ کپڑا لے سکتا ہے؟ اور اگر لے لے تو کیا اس کا مواخذہ مینیجر سے ہوگا یا وہ شخص بھی اللہ کے ہاں جواب دہ ہوگا؟
جواب از فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
اس مسئلے کا جواب مینیجر کے اختیارات پر منحصر ہے۔ درج ذیل نکات میں تفصیل دی جا رہی ہے:
1. مینیجر کے اختیارات کی نوعیت کا جائزہ
یہ دیکھنا ضروری ہے کہ مینیجر کو فیکٹری کے مالک کی جانب سے کیا اختیارات دیے گئے ہیں۔
اگر مینیجر کے اختیارات محدود ہیں اور وہ ان اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے دوسروں کو فیکٹری کا سامان لینے کی اجازت دیتا ہے تو وہ خود اس کا ذمہ دار ہوگا۔
2. مینیجر کے غلط استعمال کی صورت میں جواب دہی
اگر مینیجر اپنے اختیارات کا غلط استعمال صرف دوسروں میں مقبول ہونے یا اچھا بننے کے لیے کرتا ہے، تو وہ اللہ کے ہاں جواب دہ ہوگا۔
ایسی صورت میں، جب یہ واضح ہو جائے کہ مینیجر کو یہ اجازت دینا غیر قانونی ہے، تو ملازم کو چاہیے کہ وہ مینیجر سے بات کرنے کے بجائے براہِ راست فیکٹری کے مالک سے رجوع کرے۔
3. مالک کی اجازت کے تحت لینا
اگر یہ ثابت ہو جائے کہ فیکٹری کے مالک کو اس معاملے کی مکمل معلومات ہیں اور اس نے مینیجر کو چھوٹے موٹے معاملات میں فیصلہ کرنے کا اختیار دے رکھا ہے، تو ایسی صورت میں مینیجر کے کہنے پر کپڑا لینا درست ہوگا، اور اس پر کوئی گناہ نہیں ہوگا۔
نتیجہ:
◈ اگر مینیجر کے پاس محدود اختیارات ہیں اور وہ ان سے تجاوز کر رہا ہے، تو جواب دہی مینیجر پر ہوگی۔
◈ لیکن اگر مالک کی اجازت اور علم کے تحت مینیجر یہ اجازت دے رہا ہے، تو پھر ان شاء اللہ کوئی حرج نہیں۔