فیمنزم کا بنیادی مقدمہ
فیمنزم کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ نظریہ عورت پر ہونے والے ظلم و ناانصافی کے خلاف ایک فطری ردعمل ہے، اور اسی بنیاد پر وہ خود کو "فیمنسٹ” کہتے ہیں۔ مگر غور کیا جائے تو تاریخ میں کئی ایسے نظریات ملتے ہیں جن کے محرکات بظاہر نیک نیتی پر مبنی تھے، لیکن وقت کے ساتھ وہ گمراہی کا شکار ہوگئے۔ مثال کے طور پر:
- قوم نوح میں شرک کا آغاز نیک لوگوں کی یاد کو محفوظ رکھنے کی نیت سے ہوا، جو بعد میں بت پرستی میں بدل گیا۔
- عربوں میں شرک کی ابتدا امر بن لحی خزاعی کے ذریعے ہوئی، جس کا مقصد عربوں کو ترقی یافتہ اقوام کے برابر لانا تھا۔
باطل نظریات اکثر حق کی کسی نہ کسی بنیاد پر استوار کیے جاتے ہیں، کیونکہ انسان کی فطرت میں خیر و شر دونوں موجود ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر گمراہ کن نظریہ، چاہے وہ فیمنزم ہو، کمیونزم ہو یا کیپٹلزم، کہیں نہ کہیں سچائی کی آمیزش رکھتا ہے تاکہ لوگوں کو اپنی طرف مائل کرسکے۔
فیمنزم اور انسانی فطرت
اسلام مرد و عورت کے درمیان بعض فطری فرق کو تسلیم کرتا ہے اور ان کے حقوق و فرائض میں توازن قائم رکھتا ہے۔ مثال کے طور پر:
- جذباتی و جسمانی فرق: جیسے کہ جنسی جذبہ، جسے اسلام نے دبانے کے بجائے جائز طریقے سے استعمال کرنے کا حکم دیا۔
- فضیلت اور برابری: اسلام ہر فرد کو اس کے اعمال کی بنیاد پر فضیلت دیتا ہے، اور بعض کو بعض پر فوقیت حاصل ہوتی ہے۔ قرآن کہتا ہے:
فَلْيَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُونَ (جو لوگ آگے بڑھنا چاہتے ہیں وہ نیکی میں ایک دوسرے سے مقابلہ کریں)
وَلَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللَّهُ بِهِ بَعْضَكُمْ عَلَى بَعْضٍ (اللہ نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے، اس پر حسرت نہ کرو)
حضرت ام سلمہؓ نے جب یہ سوال کیا کہ مرد جہاد کرکے دنیا و آخرت میں فضیلت حاصل کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب دیا، اور کئی دیگر مواقع پر عورتوں کے جائز مطالبات کو قبول کیا گیا۔ مگر جہاں عورتوں نے مردوں کی شرعی فضیلت پر سوال اٹھایا، وہاں اسلام نے اس رویے سے منع کیا اور واضح کیا کہ اللہ اور اس کے رسول کے فیصلوں پر ایمان لانے والوں کے لیے تذبذب کی کوئی گنجائش نہیں۔
فیمنزم کا بنیادی تضاد
فیمنزم مطلق برابری کا نظریہ پیش کرتا ہے، جو اسلامی تعلیمات سے متصادم ہے۔ یہ ایک "سلپری سلوپ” ہے جو آہستہ آہستہ انسان کو گمراہی کی طرف لے جاتا ہے:
- بعض مسلم خواتین فقہی اختلافات کا سہارا لے کر فیمنزم کے کچھ تصورات کو اسلامی رنگ دینے کی کوشش کرتی ہیں۔
- کچھ خواتین اجماعی اسلامی احکامات کو رد کرکے خود کو "مسلم فیمنسٹ” کہلاتی ہیں۔
- بعض خواتین اس فکری سفر میں اسلام ہی سے انکار کرکے مرتد ہوجاتی ہیں۔
مردانہ بالادستی کا مقدمہ
فیمنزم کے بنیادی عقائد میں سے ایک یہ ہے کہ دنیا ہمیشہ سے مردوں کے تسلط میں رہی ہے، اور مردوں نے عورتوں کا استحصال کیا ہے۔ مگر یہ تصور اسلام کے نظریہ نبوت، شریعت اور علمائے کرام کے کردار پر سوال اٹھاتا ہے:
- تمام انبیاء مرد تھے، تو کیا وہ بھی مردانہ بالادستی کے نظام کا حصہ تھے؟
- علمائے اسلام میں اکثریت مردوں کی رہی، تو کیا ان سب کا مقصد عورت کو دبانا تھا؟
- اگر مردانہ استحصال واقعی ایک منظم نظام ہوتا، تو قرآن و حدیث میں اس کے خلاف کوئی واضح حکم کیوں نہیں دیا گیا؟
فیمنزم کا انجام: گمراہی اور ارتداد
فیمنزم کے اس مقدمے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ:
- پہلے روایتی علماء کو رد کیا جاتا ہے۔
- پھر انبیاء پر تنقید کی جاتی ہے (جیسا کہ آمنہ ودود نے کیا)۔
- آخر میں قرآن پر اعتراضات اٹھائے جاتے ہیں، جیسے کہ:
- اللہ نے خود کو مذکر کیوں کہا؟
- پہلے آدمؑ (مرد) کو کیوں پیدا کیا؟
- سورۃ النساء کی آیت 34 میں مردوں کو قوام کیوں قرار دیا؟
یہ وہ فکری تضادات ہیں جن کے باعث فیمنزم کے پیروکار آہستہ آہستہ اسلام سے دور ہوتے جاتے ہیں، اور بالآخر کچھ لوگ مرتد تک ہو جاتے ہیں۔
فیمنزم اور اسلام: آپ کا موقف کیا ہے؟
اب سوال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص مردانہ بالادستی کے تصور کو قبول کیے بغیر بھی فیمنسٹ کہلا سکتا ہے، تو پھر فیمنزم کا بنیادی مقدمہ ہی ختم ہوجاتا ہے۔ اور اگر مردانہ بالادستی کے تصور کو اسلام کے ساتھ متصادم نہ سمجھا جائے، تو پھر وہ اسلام کی بنیادی تعلیمات کو کیسے قبول کرے گا؟
- وہ لوگ جو "اصلاحی”، "تجدیدی”، یا "منکر حدیث” سوچ رکھتے ہیں، وہ علماء کو رد کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے۔
- مگر وہ "نارمل مسلمان” جو اسلامی عقائد پر یقین رکھتے ہیں، جانتے ہیں کہ علمائے کرام دین کے وارث ہیں، اور ان کے بغیر دین نہ محفوظ رہتا اور نہ ہی قرآن و حدیث کی صحیح تفسیر ممکن ہوتی۔
نتیجہ: فیمنزم اسلام کے خلاف ایک تحریک ہے
فیمنزم میں مردانہ بالادستی کو ایک "سازش” کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، جس کے تحت مرد ہمیشہ عورتوں کا استحصال کرتے آئے ہیں۔ مگر حقیقت میں یہ ایک انتہائی متعصبانہ اور گمراہ کن نظریہ ہے جو عورت کو مرد کے خلاف بھڑکاتا ہے، اور آخر کار دین سے دور لے جاتا ہے۔