فیمنزم اور اسلام کی تعلیمات میں مکمل تضاد

فیمنزم اور اسلامی نظریہ: ایک بنیادی تضاد

فیمنزم اور اسلام کے درمیان کچھ جزوی اختلاف نہیں، بلکہ ایک واضح تضاد پایا جاتا ہے۔ فیمنزم ایسے کئی اسلامی احکامات کو قبول نہیں کرتا جو دین میں بنیادی حیثیت رکھتے ہیں، جیسے:

  • وراثت: اسلام میں مرد کے مقابلے میں عورت کا حصہ آدھا ہے، جبکہ فیمنزم اسے ناپسند کرتا ہے۔
  • نشوز والی آیت: فیمنزم اس آیت کو عورت کے خلاف سمجھتا ہے۔
  • وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ: عورت کا گھریلو زندگی کو ترجیح دینا فیمنزم کو قبول نہیں۔
  • الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ: مرد کی قوامیت کو فیمنزم استحصال قرار دیتا ہے۔
  • امامت کا حق: اسلام میں امامت صرف مرد کے لیے ہے، جو فیمنزم کو ناگوار گزرتا ہے۔
  • تمام انبیاء کا مرد ہونا: فیمنزم اس پر اعتراض اٹھاتا ہے۔

فیمنزم کا نظریہ اور اسلام کی تعلیمات

فیمنزم کا بنیادی عقیدہ مرد اور عورت کو ہر لحاظ سے برابر سمجھنا ہے، جبکہ اسلام میں دونوں کی ذمہ داریاں اور حقوق فطرت کے مطابق متعین کیے گئے ہیں۔ چنانچہ:

  • شوہر کے لیے بیوی کا زیب و زینت اختیار کرنا: اسلام میں عبادت، فیمنزم میں ظلم۔
  • مرد کو قوام بنایا جانا: اسلام میں فطری اصول، فیمنزم کے نزدیک استحصال۔
  • اسقاط حمل کی ممانعت: اسلام میں حرام، فیمنزم میں عورت کا بنیادی حق۔
  • وراثت میں مرد کا زیادہ حصہ: اسلام میں عدل، فیمنزم کے نزدیک ناانصافی۔
  • شوہر کی اطاعت: اسلام میں لازم، فیمنزم کے مطابق پدرشاہی۔

فیمنزم: ایک راستہ جو الحاد تک لے جاتا ہے؟

اگر اسلام کے پیمانے کو چھوڑ کر فیمنزم کا معیار اپنایا جائے، تو آہستہ آہستہ وہ تمام احکامات جنہیں اسلام عدل قرار دیتا ہے، ناانصافی محسوس ہونے لگتی ہے، جیسے:

  • وراثت میں فرق ظلم لگنے لگے گا۔
  • عورت کی گواہی کا آدھا ہونا ناانصافی لگنے لگے گی۔
  • مرد کے لیے تعدد ازواج حقوق کی پامالی محسوس ہوگی۔
  • مرد کو لونڈی سے تعلق کی اجازت اور عورت کے لیے ممانعت پر اعتراض ہوگا۔
  • تمام انبیاء کے مرد ہونے پر سوالات اٹھیں گے۔

آخرکار، انسان یہ سوچنے پر مجبور ہوگا کہ "ایسے عدل سے عاری خدا پر ایمان ہی کیوں رکھا جائے؟” (نعوذباللہ)۔

اسلام یا فیمنزم: انصاف کا معیار کیا ہونا چاہیے؟

مسئلہ یہ نہیں کہ استحصال اور زیادتی کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے یا نہیں، بلکہ یہ ہے کہ فیصلہ کس معیار پر ہو؟ اسلام ظلم اور ناانصافی کی سخت مذمت کرتا ہے، مگر اس کا پیمانہ فیمنزم سے مختلف ہے۔

  • اسلام عورت کے ساتھ نرمی، محبت اور عزت کا حکم دیتا ہے۔
  • فیمنزم صرف نعرے لگاتا ہے، مگر حقیقی حقوق دینے میں ناکام ہے۔
  • اسلام نے چودہ سو سال قبل ہی عورت کے حقوق کے قوانین بنا دیے تھے۔

مسلمان عورت کو مسئلے کا حل کہاں تلاش کرنا چاہیے؟

اگر کوئی عورت ظلم یا استحصال کا شکار ہے تو اسے اسلام میں حل تلاش کرنا ہوگا، نہ کہ فیمنزم میں۔ فیمنزم ابتدا میں حمایت کا نعرہ لگاتا ہے، لیکن آہستہ آہستہ ایسے سوالات پیدا کرتا ہے جو آخرکار دین سے بغاوت کی طرف لے جاتے ہیں۔

نتیجہ

فیمنزم کے خلاف لکھنے کا مقصد یہ نہیں کہ ہم پدرشاہی (Patriarchy) یا عورتوں پر ظلم کے حامی ہیں، بلکہ اس لیے کہ ہمارا معیار فیمنزم نہیں، اسلام ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1