ابتدائی تصور اور موجودہ حقیقت
فیس بک کی تخلیق کا بنیادی مقصد چند قریبی افراد کو آپس میں جوڑنا اور ذاتی تصاویر، معلومات اور تجربات کو شیئر کرنا تھا۔ لیکن جلد ہی یہ پلیٹ فارم انسانی نفسیات کی منفی جہتوں، جیسے نظریاتی جھگڑوں اور دوسروں پر اپنے نظریات مسلط کرنے کی خواہش کا شکار بن گیا۔ نتیجتاً، فیس بک کو مختلف مذاہب، سیاسی تنظیموں، اور ثقافتی نظریات کے لوگوں نے اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا۔
اسلام اور پاکستان کے خلاف استعمال
عالمی طاقتوں نے فیس بک کو اسلام اور پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ تقریباً پانچ سال قبل اردو زبان میں ایسے گروپس اور پیجز بنائے گئے جن میں الحاد، دہریت، سیکولرازم، اور پاکستان مخالف پروپیگنڈہ کیا گیا۔ ان فورمز پر:
اسلام کے خلاف مواد:
- خدا کے وجود کا انکار
- قرآن مجید پر اعتراضات
- نبی اکرم ﷺ کی ذات پر بے بنیاد الزامات
- اسلامی تاریخ کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا
پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا:
- پاکستان کو ناکام ریاست قرار دینا
- اقلیتوں کے لیے خطرناک ملک کے طور پر پیش کرنا
- پاکستانی فوج کے خلاف جھوٹے بیانیے بنانا
ملحدین کے پروپیگنڈے کے طریقے
یہ گروپس ملحدانہ نظریات کے فروغ اور مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے لیے مختلف طریقے استعمال کرتے ہیں:
جعلی شناختیں:
اسلامی ناموں کے جعلی اکاؤنٹس بنا کر سادہ لوح مسلمانوں کے ساتھ گفتگو کرنا تاکہ ان کے ذہنوں میں شکوک و شبہات پیدا کیے جا سکیں۔
سابقہ مسلمان ہونے کا دعویٰ:
یہ لوگ اپنے آپ کو "پیدائشی مسلمان” ظاہر کرتے ہیں، حالانکہ ان کی اسلامی معلومات بنیادی سوالات کے جوابات دینے کے بھی قابل نہیں ہوتیں۔
اسلامی متون میں توڑ مروڑ:
ضعیف یا موضوع احادیث کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا، قرآن کی غلط تشریحات دینا، اور تاریخ کو مسخ کرنا ان کا وطیرہ ہے۔
تصاویر اور شناخت کی چوری:
مسلمانوں کے پروفائلز سے تصاویر چرا کر جعلی دعوے گھڑنا، جیسے نبوت کا جھوٹا دعویٰ، تاکہ مسلمانوں کو بدنام کیا جا سکے۔
نظریاتی جنگ اور مسلمانوں کی ذمہ داری
اگرچہ ان لوگوں کے اعتراضات علمی و تحقیقی نہیں بلکہ بدنیتی پر مبنی ہوتے ہیں، لیکن یہ سوال مسلمانوں کے لیے اہم ہے کہ:
- کیا ہم علمی انداز میں ان اعتراضات کا جواب دے رہے ہیں؟
- کیا ہماری عوام کو ان پروپیگنڈوں کا جواب دینے کی تربیت ہے؟
مسلمانوں کی جذباتیت کا نقصان
مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد فیس بک پر بغیر تصدیق کے کسی بھی جعلی خبر یا پروپیگنڈے کا شکار ہو جاتی ہے۔ اس کے نقصانات درج ذیل ہیں:
- جعلی الزامات پر جذباتی ردعمل دینا۔
- فتوے جاری کرنا یا کسی مسلمان کو مرتد قرار دینا۔
- غیر مستند معلومات کو شیئر کرکے خود نقصان اٹھانا۔
فتنہ پرور گروہوں کی خطرناک چالیں
ان گروہوں نے مختلف مسالک کے نام سے جعلی اکاؤنٹس بنائے اور ان سے فرقہ وارانہ مواد پھیلایا۔ مثال کے طور پر:
- سپاہ صحابہ، دعوت اسلامی، یا دیگر تنظیموں کے نام پر اکاؤنٹس بنا کر مخالف مسالک کے خلاف نفرت انگیز مواد شیئر کرنا۔
- فرقہ واریت کو بڑھاوا دینے کے لیے جعلی پروفائلز سے الزامات اور گستاخانہ مواد پوسٹ کرنا۔
مسلمانوں کی ذمہ داری
سوشل میڈیا پر تربیت:
سادہ لوح مسلمانوں کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ ہر بات کو بلا تصدیق قبول نہ کریں۔
علما کا کردار:
علما کو جدید تقاضوں کے مطابق دین کے دفاع کا فریضہ انجام دینا ہوگا۔ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے باطل نظریات کے خلاف مدلل جواب دینا ضروری ہے۔
قانونی اقدامات:
توہین رسالت جیسے نازک مسائل پر تمام مکاتب فکر کو مل کر کوئی متفقہ لائحہ عمل پیش کرنا چاہیے۔
عوامی شعور بیدار کرنا:
عوام کو سکھایا جائے کہ کسی بھی مسئلے پر مشتعل ہونے سے پہلے تحقیق اور تصدیق کی عادت ڈالیں۔
نتیجہ
یہ فتنہ انگیز گروہ مسلمانوں کی جذباتیت اور لاعلمی کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ لہٰذا، امت مسلمہ کو متحد ہو کر ان سازشوں کا مقابلہ کرنا ہوگا اور اسلام کی حقیقی تصویر دنیا کے سامنے پیش کرنی ہوگی۔