فطفق مسحا بالسوق والأعناق کی تفسیر: دو مفسرین کے اقوال کا جائزہ
ماخوذ: فتاوی امن پوری از شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری

سوال:

درج ذیل آیت کریمہ کی تفسیر کیا ہے؟
❀ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَوَهَبْنَا لِدَاوُدَ سُلَيْمَانَ نِعْمَ الْعَبْدُ إِنَّهُ أَوَّابٌ إِذْ عُرِضَ عَلَيْهِ بِالْعَشِيِّ الصَّافِنَاتُ الْجِيَادُ فَقَالَ إِنِّي أَحْبَبْتُ حُبَّ الْخَيْرِ عَنْ ذِكْرِ رَبِّي حَتَّى تَوَارَتْ بِالْحِجَابِ رُدُّوهَا عَلَيَّ فَطَفِقَ مَسْحًا بِالسُّوقِ وَالْأَعْنَاقِ﴾
(ص: 30-33)
ہم نے داود کو سلیمان عطا کیے، وہ بہترین بندے تھے، (وہ اللہ تعالیٰ کی طرف) بہت زیادہ رجوع (توبہ) کرنے والے تھے، جب شام کو ان کے پاس عمدہ نسل کے گھوڑے پیش کیے گئے، تو انہوں نے کہا: میں اس مال (گھوڑوں) کی محبت کو اپنے رب کے ذکر سے محبوب کر بیٹھا ہوں، یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا۔ (پھر حکم دیا کہ) انہیں (گھوڑوں کو) میرے پاس واپس لاؤ، تو وہ ان کی پنڈلیوں اور گردنوں پر ہاتھ پھیرنے لگے۔
جواب:
❀ فرمان باری تعالیٰ:
﴿فَطَفِقَ مَسْحًا بِالسُّوقِ وَالْأَعْنَاقِ﴾
(ص: 33)
کے معنی و مفہوم میں مفسرین کی دو آرا پائی جاتی ہیں:
پہلی رائے:
جمہور مفسرین کے مطابق یہاں ہاتھ پھیرنے سے مراد ذبح کرنا ہے۔
یہ تفسیر امام سدی رحمہ اللہ (تفسیر طبری: 86/20، وسندہ حسن) اور امام حسن بصری رحمہ اللہ (تفسیر طبری: 87/20، وسندہ صحیح) سمیت کئی مفسرین سے ثابت ہے۔
اس تفسیر کے مطابق سیدنا سلیمان علیہ السلام کو گھوڑوں کی دیکھ بھال نے ذکر الہی سے مشغول کر دیا۔ یہاں ذکر الہی سے مراد نماز ہے۔ جب سیدنا سلیمان علیہ السلام کو یاد آیا کہ گھوڑوں کی وجہ سے ان کی نماز رہ گئی ہے، تو انہوں نے گھوڑوں کو ذبح کر دیا۔ قرآن نے ہاتھ پھیرنے کا لفظ بولا۔ یہاں ہاتھ پھیرنا ذبح سے کنایہ ہے۔
❀ علامہ راغب اصفہانی رحمہ اللہ (502ھ) فرماتے ہیں:
مسحته بالسيف، كناية عن الضرب
مَسَحْتُهُ بِالسَّيْفِ گردن مارنے سے کنایہ ہے۔
(المفردات فی غریب القرآن، ص 767)
علامہ منتجب ہمدانی رحمہ اللہ (643ھ) فرماتے ہیں:
العرب تقول: مسح علاوته إذا ضرب عنقه
جب کوئی کسی کی گردن کاٹ دے، تو عرب کہتے ہیں: مَسَحَ عِلَاوَتَهُ
(الكتاب الفرید: 425/5)
بعض لوگ اس تفسیر کو شان نبوت کے خلاف سمجھتے ہیں کہ ایک پیغمبر کیسے نماز سے غفلت کر سکتا ہے، نیز وہ کیسے گھوڑوں کو بغیر کسی جرم کے تلف کر سکتا ہے؟ حالانکہ یہ تفسیر کسی اعتبار سے شان نبوت کے خلاف نہیں۔ یہاں سیدنا سلیمان علیہ السلام نماز سے مشغول جان بوجھ کر نہیں ہوئے، بلکہ نماز پڑھنا بھول گئے تھے۔ بھلا بھولنا کسی پیغمبر کی شان کے خلاف ہے؟ ہرگز نہیں، پیغمبر بھی بھول سکتا ہے۔ کتاب و سنت میں اس پر کئی دلائل موجود ہیں۔
اب چونکہ یہ بھول گھوڑوں کی وجہ سے ہوئی تھی، جو سیدنا سلیمان علیہ السلام کی قیمتی متاع تھی، وہ ان گھوڑوں کے مالک تھے، لہذا انہوں نے سمجھا کہ میری محبوب متاع نے مجھے نماز سے غافل کر دیا، جو ان پر گراں گزرا، تو انہوں نے اپنی ملکیت کے گھوڑوں کو ذبح کر دیا۔ ایسا نہیں کہ انہیں ذبح کر کے پھینک دیا، بلکہ یقینی طور پر ان کا گوشت تقسیم کر دیا ہوگا، کیونکہ گھوڑا کسی امت میں حرام نہیں رہا۔ ہر ایک کو اپنی ملکیت میں مکمل تصرف کا حق حاصل ہے، سو سیدنا سلیمان علیہ السلام نے بھی اپنے مال میں تصرف کیا۔ ثابت ہوا کہ یہ تفسیر شان نبوت کے خلاف نہیں۔
پنڈلیاں اور گردنیں کاٹنے سے مراد یا تو یہ ہے کہ انہیں گردن سے ذبح کیا گیا، پھر ان کی پنڈلیوں اور دیگر اعضا کو کاٹ کر گوشت بنایا گیا، جیسا کہ ہمارے ہاں ہوتا ہے۔ یا سیدنا سلیمان علیہ السلام کی شریعت میں ذبح کا یہی طریقہ ہو گا کہ گردن اور پنڈلیوں سے ذبح کیا جاتا ہو۔ رہی ان گھوڑوں کی تعداد، تو اس کا صحیح علم اللہ کے پاس ہے۔
❀ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
قوله: ﴿فَطَفِقَ مَسْحًا بِالسُّوقِ وَالْأَعْنَاقِ﴾ قال: قطع أعناقها وسوقها
فرمان الہی: ﴿فَطَفِقَ مَسْحًا بِالسُّوقِ وَالْأَعْنَاقِ﴾ کی تفسیر ہے کہ سلیمان علیہ السلام نے گھوڑوں کی گردنیں اور پنڈلیاں کاٹ دیں۔
(المعجم الأوسط للطبرانی: 6997، معجم أسامی شیوخ أبی بکر الإسماعیلی: 370)
سند ضعیف ہے۔ سعید بن بشیر ازدی ضعیف ہے، بالخصوص قتادہ سے اس کی روایت غیر محفوظ ہوتی ہے۔
❀ امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
كان رديء الحفظ فاحش الخطأ يروي عن قتادة ما لا يتابع عليه
یہ ردیء الحفظ اور فاحش الخطا راوی ہے، اس نے قتادہ سے ایسی روایات بیان کی ہیں، جن پر اس کی متابعت نہیں کی گئی۔
(المجروحین: 319/1)
❀ حافظ ابن ملقن رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الأكثر على ضعفه
جمہور کے ہاں ضعیف ہے۔
(البدر المنیر: 67/4)
❀ حافظ سخاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ضعيف عند أكثرهم
اکثر محدثین نے ضعیف کہا ہے۔
(المقاصد الحسنة، ص 403)
قتادہ کا عنعنہ ہے۔ صفوان بن صالح مؤذن تدلیس تسویہ کرتا تھا، قبول روایت کے لیے آخر سند تک سماع کی صراحت چاہیے۔
دوسری رائے:
بعض مفسرین کے مطابق یہاں ہاتھ پھیرنے سے مراد پیار و محبت سے گھوڑوں کی گردن اور ٹانگوں پر ہاتھ پھیرنا ہے۔
ان مفسرین کے مطابق سیدنا سلیمان علیہ السلام کو گھوڑوں نے نماز سے مشغول نہیں کیا، نہ انہوں نے گھوڑوں کو ذبح کیا، بلکہ ان سے محبت ذکر الہی کی وجہ سے کرتے تھے، جس کے اظہار کے لیے انہوں نے ان کی گردنوں اور پنڈلیوں پر ہاتھ پھیرا۔
امام محمد بن جریر طبری رحمہ اللہ نے اسی معنی کو راجح قرار دیا ہے۔
(تفسیر الطبری: 87/20)
❀ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (774ھ) فرماتے ہیں:
هذا الذى رجح به ابن جرير فيه نظر
جس قول کو ابن جریر طبری رحمہ اللہ نے راجح قرار دیا، یہ محل نظر ہے۔
(تفسیر ابن کثیر: 65/7)
❀ حافظ بغوی رحمہ اللہ (510ھ) فرماتے ہیں:
هذا قول ضعيف، والمشهور هو الأول
یہ کمزور رائے ہے، پہلی قول (ہی مفسرین کے ہاں) مشہور ہے۔
(تفسیر البغوی: 68/4)
اس تفسیر کو اس لیے اختیار کرنا کہ پہلی تفسیر شان نبوت کے خلاف ہے، سراسر باطل بات ہے، کیونکہ ہم ثابت کر چکے ہیں کہ پہلی تفسیر کسی لحاظ سے شان نبوت کے خلاف نہیں۔
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے اس آیت کی تفسیر میں مروی ہے:
جعل يمسح أعراف الخيل وعراقيبها حبا لها
سیدنا سلیمان علیہ السلام گھوڑوں سے محبت کرتے ہوئے ان کی پنڈلیوں اور گردنوں پر ہاتھ پھیرنے لگے۔
(تفسیر الطبری: 87/20)
سند ضعیف ہے۔ علی بن ابی طلحہ نے سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے تفسیر کا سماع نہیں کیا۔ عبد اللہ بن صالح مصری کا تبع اللیث سیء الحفظ ہے۔
حافظ بہیقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ضعفه الجمهور
اسے جمہور نے ضعیف قرار دیا ہے۔
(مجمع الزوائد : 13/2)
❀ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الجمهور على تضعيفه
جمہور ضعیف قرار دیتے ہیں۔
(لسان الميزان : 12/4)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے