"اللهم اجعلني صبورًا واجعلني شكورًا…” والی دعا کی سند کیسی ہے؟

سوال

"اللهم اجعلني صبورًا واجعلني شكورًا…” والی دعا کی سند کیسی ہے؟ اگر یہ حدیث ضعیف ہے تو کیا یہ دعا کی جا سکتی ہے؟

جواب از فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ

یہ حدیث سند کے اعتبار سے صحیح نہیں ہے۔ کئی ایک اہل علم نے اسے ضعیف بلکہ منکر قرار دیا ہے۔

حدیث کی سند اور محدثین کی آراء

امام بزار رحمہ اللہ نے اسے روایت کیا اور فرمایا:

"هَذَا الْحَدِيثُ لا نعلَمُ أحَدًا رَوَاهُ عَنْ عَبد اللَّهِ بْنِ بُرَيدة، عَن أَبيهِ إلَاّ عُقْبَةَ الأَصَمَّ، وهُو رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْبَصْرَةِ لَيْسَ به بأس”
[مسند البزار: 10/ 315، رقم: 4439]
(یہ حدیث صرف عقبہ الأصم نے روایت کی ہے، جو بصرہ کے راوی ہیں، لیکن ان پر کچھ کلام کیا گیا ہے)

امام ابن ابی حاتم نے اپنے والد امام ابو حاتم رحمہ اللہ سے اس حدیث کے متعلق پوچھا، تو انہوں نے فرمایا:

"هَذَا حديثٌ منكرٌ لا يُعرَفُ، وعُقْبةُ ليِّنُ الْحَدِيث”
[العلل لابن أبي حاتم: 5/ 274]
(یہ حدیث منکر ہے اور عقبہ الحدیث میں کمزور راوی ہیں)

علامہ ہیثمی رحمہ اللہ نے فرمایا:

"رَوَاهُ الْبَزَّارُ، وَفِيهِ عُقْبَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَصَمُّ، وَهُوَ ضَعِيفٌ”
[مجمع الزوائد: 10/ 181]
(اس حدیث میں عقبہ بن عبداللہ الأصم ہیں، جو ضعیف راوی ہیں)

شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی اس روایت کو منکر قرار دیا ہے۔
[السلسلة الضعيفة: 2/ 313، رقم: 911]

کیا اس دعا کو پڑھنا جائز ہے؟

روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود، چونکہ اس کا معنی و مفہوم درست ہے اور الفاظ میں کوئی شرعی قباحت نہیں، اس لیے کئی ائمہ کرام نے اسے ادعیہ و اذکار کے طور پر ذکر کیا ہے، مثلاً:

◈ امام منذری نے الترغیب و الترہیب میں
◈ امام شوکانی نے تحفۃ الذاکرین میں
◈ امام مناوی اور امام صنعانی نے الجامع الصغیر کی شروحات میں

شیخ بکر ابو زید رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جو دعائیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہیں، انہیں مانگنا درج ذیل پانچ شرائط کے ساتھ جائز ہے:

➊ دعا کے الفاظ واضح اور عمدہ ہوں، کیونکہ یہ اللہ سے مناجات کا مقام ہے۔
➋ دعا کے الفاظ عربی زبان کے اصولوں کے مطابق ہوں۔
➌ دعا کسی شرعی قباحت (مثلاً شرک یا بدعت) سے خالی ہو۔
➍ یہ دعا عام ہو، کسی خاص وقت، جگہ یا حالت کے ساتھ مخصوص نہ ہو۔
➎ اس دعا کو سنت یا مستحب سمجھ کر لازم نہ کیا جائے۔
[تصحيح الدعاء: 42-43]

خلاصہ

◈ یہ حدیث ضعیف ہے، اس لیے اسے حدیث یا سنت سمجھ کر نہیں لینا چاہیے۔
◈ لیکن دعا کے الفاظ درست اور مفہوم میں کوئی شرعی قباحت نہیں، اس لیے ان الفاظ میں دعا کرنا جائز ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1