سوال:
فضائل اور ترغیب و ترہیب میں ضعیف روایات کا کیا حکم ہے؟
جواب:
فضائل کا تعلق بھی دین سے ہے، اس لیے فضائل میں ضعیف روایات سے حجت پکڑنا جائز نہیں، سلف میں کوئی بھی اس کا قائل نہیں رہا، البتہ سلف فضائل وغیرہ میں مروی روایات کی تنقیح و تحقیق میں اتنی سختی نہیں کرتے تھے، جتنی احکام وسنن کی روایات بارے کرتے تھے، اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ واضح ضعیف و منکر روایات کو بھی فضائل میں حجت سمجھتے ہوں، اس کا قائل سلف میں کوئی نہیں۔
❀ امام عبدالرحمن بن مہدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
إذا روينا عن النبى صلى الله عليه وسلم فى الحلال، والحرام، والأحكام، شددنا فى الأسانيد، وانتقدنا الرجال، وإذا روينا فى فضائل الأعمال والثواب، والعقاب، والمباحات، والدعوات تساهلنا فى الأسانيد
جب ہم حلال و حرام اور احکام کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث بیان کرتے ہیں، تو ہم سندوں کی تحقیق و تنقیح میں سختی کرتے ہیں اور رجال کی خوب جانچ کرتے ہیں اور جب ہم فضائل اعمال، ثواب، عقاب، مباحات اور دعوات کے بارے میں روایات بیان کرتے ہیں، تو سندوں کی تحقیق و تنقیح میں نرمی برتتے ہیں۔
(المستدرك للحاكم: 490/1، دلائل النبوة للبيهقي: 34/1، وسنده صحيح)
❀ امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أنا بمشيئة الله أجري الأخبار التى سقطت على الشيخين فى كتاب الدعوات على مذهب أبى سعيد عبد الرحمٰن بن مهدي فى قبولها
میں بھی اللہ کے حکم سے شیخین کی شرائط پر مبنی کتاب الدعوات کی روایات کو قبول کرنے میں امام ابوسعید عبدالرحمن بن مہدی رحمہ اللہ کے مذہب پر ہوں۔
(المستدرك: 490/1)
❀ امام یحیی بن سعید قطان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
تساهلوا فى التفسير عن قوم لا يوتقونهم فى الحديث
ایسے راویوں سے تفسیری روایات لینے میں نرمی برتیں، جنہیں محدثین حدیث میں قابل اعتماد نہیں سمجھتے۔
(دلائل النبوة للبيهقي: 35/1، وسنده صحيح)
یہاں وہ تفسیری روایات مراد ہیں، جو کسی لفظ کا معنی وغیرہ متعین کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں، نیز وہ دیگر صحیح الاسنادی روایات و آیات کے مخالف بھی نہ ہوں۔
❀ حافظ سخاوی رحمہ اللہ (902ھ) فرماتے ہیں:
خالف ابن العربي المالكي فى ذلك فقال: إن الحديث الضعيف لا يعمل به مطلقا، وقد سمعت شيخنا مرارا يقول وكتبه لي بخطه: أن شرائط العمل بالضعيف ثلاثة؛ الأول: متفق عليه، أن يكون الضعف غير شديد فيخرج من انفرد من الكذابين والمتهمين بالكذب ومن فحش غلطه، الثاني: أن يكون مندرجا تحت أصل عام فيخرج ما يخترع بحيث لا يكون له أصل أصلا، الثالث: أن لا يعتقد عند العمل به ثبوته لئلا ينسب إلى النبى صلى الله عليه وسلم ما لم يقله، قال: والأخيران عن ابن السلام وعن صاحبه ابن دقيق العيد والأول نقل العلائي الإتفاق عليه
اس مسئلہ میں علامہ ابن العربی مالکی رحمہ اللہ نے مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ضعیف حدیث پر مطلقاً عمل نہیں کیا جائے گا۔ جبکہ میں نے اپنے شیخ (حافظ ابن حجر رحمہ اللہ) سے کئی مرتبہ سنا ہے، بلکہ انہوں نے مجھے اپنے ہاتھ سے لکھ کر بھی دیا ہے کہ ضعیف حدیث پر عمل کی تین شرائط ہیں؛ یہ شرط سب کے ہاں اجماعی و اتفاقی ہے کہ اس روایت کا ضعف شدید نہ ہو، اس شرط سے کذاب، متہم بالکذب اور فاحش الغلط راویوں کی منفرد روایات خارج ہوگئیں۔ وہ روایت کسی عمومی اصل کے تحت ہو، اس شرط سے من گھڑت روایت خارج ہو جائے گی، کہ اس کی سرے سے کوئی اصل نہیں ہوتی۔ اس ضعیف پر عمل کے وقت اس کے ثابت ہونے کا اعتقاد نہ رکھا جائے، اس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ایسی بات منسوب ہو جائے گی، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہی نہیں۔ نیز حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: آخری دو شرائط علامہ عز بن عبد السلام رحمہ اللہ اور ان کے شاگرد حافظ ابن دقیق العید رحمہ اللہ سے منقول ہیں اور پہلی شرط پر حافظ علائی رحمہ اللہ نے اتفاق نقل کیا ہے۔
(القَوْل البديع، ص 255، تدريب الراوي للسيوطي: 298/1)
❀ حافظ نووی رحمہ اللہ (676ھ) فرماتے ہیں:
قد اتفق علماء المحدثين وغيرهم على السماحة فى أحاديث الفضائل، والترغيب والترهيب
محدثین اور دیگر اہل علم کا فضائل اور ترغیب و ترہیب پر مبنی احادیث کے بارے میں نرمی برتنے پر اتفاق ہے۔
(المجموع: 257/5-258)
❀ علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ (1420ھ) فرماتے ہیں:
لا يرد هنا ما اشتهر من القول بالعمل بالحديث الضعيف فى فضائل الأعمال، فإن هذا محله فيما ثبتت مشروعيته بالكتاب أو السنة الصحيحة، وأما ما ليس كذلك، فلا يجوز العمل به بالحديث الضعيف لأنه تشريع، ولا يجوز ذلك بالحديث الضعيف، لأنه يفيد إلا الظن المرجوح اتفاقا، فكيف يجوز العمل بمثله
فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل کے بارے میں جو بات مشہور ہے، اس کا اطلاق یہاں نہیں ہو سکتا۔ یہ ان اعمال سے متعلق ہے، جن کی مشروعیت قرآن کریم یا صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ جو عمل کتاب وسنت سے ثابت نہ ہو، اس بارے میں ضعیف حدیث پر عمل جائز نہیں، کیونکہ یہ (ثواب کے لیے عمل کرنا) شریعت ہے اور شریعت ضعیف حدیث سے ثابت نہیں ہوتی۔ ضعیف حدیث بالا اتفاق مرجوح ظن کا فائدہ دیتی ہے۔ ایسی کمزور دلیل پر عمل کرنا کیونکر جائز ہوا؟
(سلسلة الأحاديث الضعيفة: 65/2)
❀ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (728ھ) فرماتے ہیں:
لم يقل أحد من الأئمة: إنه يجوز أن يجعل الشرع واجبا أو مستحبا بحديث ضعيف، ومن قال هذا فقد خالف الإجماع
ائمہ میں سے کسی نے یہ نہیں کہا کہ ضعیف حدیث کی بنیاد پر کسی عمل کو واجب یا مستحب کہنا جائز ہے۔ یہ دعویٰ کرنے والا اجماع کا مخالف ہے۔
(مجموع الفتاوى: 251/1)
فضائل میں ضعیف کے معتبر ہونے یا نہ ہونے کی بحث سلف میں نہ تھی لیکن بے سند روایت کو تو آج تک کسی نے بھی معتبر نہیں کہا۔ قارئین! دین صحیح روایات کا نام ہے، فضائل کا تعلق بھی دین سے ہے۔
❀ امام ابن حبان رحمہ اللہ (354ھ) فرماتے ہیں:
لم أعتبر ذلك الضعيف لأن رواية الواهي ومن لم يرو سواء
میں نے اس ضعیف راوی کا اعتبار نہیں کیا، کیونکہ کمزور راوی کی روایت نہ ہونے کے برابر ہے۔
(الثقات: 159/9)
❀ نیز فرماتے ہیں:
كأن ما روى الضعيف وما لم يرو فى الحكم سواء
گویا کہ ضعیف کی روایت حکم میں نہ ہونے کے برابر ہے۔
(كتاب المجروحين: 328/1، ترجمة سعيد بن زياد الداري)
❀ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (852ھ) فرماتے ہیں:
لا فرق فى العمل بالحديث فى الأحكام أو فى الفضائل، إذ الكل شرع
احکام یا فضائل میں حدیث پر عمل میں کوئی فرق نہیں، کیونکہ دونوں فضائل اور احکام شریعت ہی تو ہیں۔
(تبيين العجب بما ورد في شهر رجب، ص 2)
ضعیف حدیث کو کوئی بھی دین نہیں کہتا۔