فروٹ کیک اور سکہ نکلنے کی رسم سے ملنے والی رقم کا شرعی حکم
ماخوذ : فتاویٰ علمائے حدیث

سوال

جہاں میں ملازمت کرتا ہوں وہاں ہر سال (عیسوی سال کے آغاز پر) فیکٹری کے مالک ایک فروٹ کیک لاتے ہیں۔ اس کیک میں اس ملک کی کرنسی کا ایک سکہ رکھا جاتا ہے۔ کیک کو اتنے حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے جتنے ملازمین موجود ہوتے ہیں۔ اس موقع پر سب سے پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نام، پھر حضرت مریم علیہا السلام یا سلام اللہ علیہ کا نام، اس کے بعد مالک کے دو بھائیوں کے نام، اور پھر ملازمین کے نام بالترتیب (سینئر سے جونیئر تک) ایک صفحے پر درج کیے جاتے ہیں۔

یہ رسم اس نیت سے کی جاتی ہے کہ نیا سال اچھا گزرے۔ جب کیک کے حصے مقرر ہوجاتے ہیں تو اسے گھما کر کاٹا جاتا ہے اور ہر ایک کے نام کے مطابق حصہ دیا جاتا ہے۔ جس ملازم کے حصے میں وہ سکہ نکل آتا ہے، اسے خوشی کے ساتھ پاکستانی کرنسی میں سولہ ہزار روپے (16000) دیے جاتے ہیں۔ اس عمل میں ملازمین کا کوئی خرچ شامل نہیں ہوتا۔

سوال یہ ہے کہ کیا اس رقم کو لینا جائز ہے؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آپ نے جس طریقے کی تفصیل بیان کی ہے وہ تمیمہ کی ایک صورت ہے، اور یہ عمل شرعاً ناجائز ہے۔

البتہ اگر فیکٹری والے اس رسم (یعنی فروٹ کیک، سکہ رکھنے اور ناموں کو شامل کرنے وغیرہ) کے بغیر محض قرعہ اندازی کے ذریعے ملازمین میں رقم تقسیم کریں تو اس میں کوئی قباحت نہیں، بشرطیکہ اس میں شریعت کے خلاف کوئی اور چیز شامل نہ ہو۔

دلیل

➊ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

«مَنْ تَعَلَّقَ تَمِیْمَة فَلاَ اَتَمَّ اللّٰہُ لَه وَمَنْ تَعَلَّقَ وَدَعَة فَلاَ وَدَعَ اللّٰہُ لَه»

’’جس نے کوئی تمیمہ لٹکایا اللہ تعالیٰ اس کی مراد پوری نہ کرے اور جس نے سیپ باندھی اللہ تعالیٰ اسے بھی آرام اور سکون نہ دے۔‘‘
[مسند احمد: ۴؍۱۵۴]

ایک اور روایت میں الفاظ یہ ہیں:

«مَنْ تَعَلَّقَ تَمِیْمَة فَقَدْ أَشْرك»

’’جس نے تمیمہ لٹکایا اس نے شرک کیا۔‘‘
[مسند احمد: ۴؍۱۵۶]

➋ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

قُلْ أَرَ‌أَيْتُم مَّا تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ إِنْ أَرَ‌ادَنِيَ اللَّـهُ بِضُرٍّ‌ هَلْ هُنَّ كَاشِفَاتُ ضُرِّ‌هِ أَوْ أَرَ‌ادَنِي بِرَ‌حْمَةٍ هَلْ هُنَّ مُمْسِكَاتُ رَ‌حْمَتِهِ قُلْ حَسْبِيَ اللَّـهُ عَلَيْهِ يَتَوَكَّلُ الْمُتَوَكِّلُونَ

’’اے محمد ﷺ! آپ ان سے کہہ دیجیے تمہارا کیا خیال ہے کہ اگر اللہ مجھے کوئی نقصان پہنچانا چاہے تو اللہ کے علاوہ جنہیں تم پکارتے ہو کیا وہ اس نقصان کو دور کرسکتے ہیں؟ یا اگر اللہ مجھ پر رحمت فرمانا چاہے تو کیا وہ اس کی رحمت کو روک سکتے ہیں؟ آپ کہہ دیجیے: مجھے تو اللہ ہی کافی ہے، اور بھروسہ کرنے والے اسی پر بھروسہ کرتے ہیں۔‘‘

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے