فرقہ واریت، نتیجه اور دعوت فکر

تحریر: حافظ ندیم ظہیر

فرقہ واریت، نتیجه اور دعوت فکر

امت مسلمہ جن پریشان کن حالات سے دو چار ہے، اس کے بہت سے اسباب و وجوہات ہیں۔ اگر سرسری طور پر جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت منکشف ہوگی کہ آج امت مسلمہ جس موڑ پر کھڑی ہے، اس کا ایک اہم پہلو انتشار و افتراق اور بے جا اختلافات کا شکار ہونا ہے۔ جس سے ہر سلیم الفطرت دل کی دھڑکن بے ترتیب، ذہن متفکر اور آنکھ نم ناک ہے۔ کیونکہ اغیار اس صورت حال سے نہ صرف بھر پور فائدہ اٹھا رہے ہیں بلکہ ان زخموں پر نمک پاشی بھی کر رہے ہیں اور مسلمانوں کی موجودہ حالت (Situation) اس بھوکے شیر کی مانند ہے جسے پنجرے میں قید کر کے اس کے سامنے صید (شکار) چھوڑ دیا جائے اور شیر تھوڑی دیر کے لئے تڑپتا ہے، کبھی دائیں کبھی بائیں پھر بالآخر تھک کر بیٹھ جاتا ہے اور حسرت بھری نگاہوں سے اپنے شکار کو دیکھتا رہتا ہے ۔ بالکل یہی سلوک امت مسلمہ کے ساتھ بھی ہو رہا ہے جنھیں مرعوبیت و بے بسی کے اندھے کنوئیں میں ڈال کر ان کے سامنے بھی رسول مکرم سیدنا محمد ﷺ کے توہین آمیز خاکے پیش کئے جاتے ہیں تو کبھی ملعون رشدی کو ’’سر‘‘ کے خطاب سے نوازا جاتا ہے اور بیچارے روحانی، جسمانی و ذہنی طور پر مفلوج مسلمان کچھ عرصے کے لئے تڑپ کر رہ جاتے ہیں۔

قارئین کرام!

کب تک ہمارے ساتھ ایسا ہوتا رہے گا؟ کب تک انتشار و افتراق کی دلدل میں پھنسے رہیں گے؟ کب تک اختلافات کی بھٹی میں جھلستے رہیں گے؟ کب تک فرقہ واریت کی بھینٹ چڑھے رہیں گے؟ کب یہ بشارت مبارکہ سننے کو ملے گی کہ امت مسلمہ اتحاد کے پلیٹ فارم (قرآن وسنت) پر اکٹھی ہوگئی ہے؟

معزز قارئین!

اختلاف کا ہو جانا بڑی بات نہیں لیکن جب یہ اختلافات ، تنازعات کی صورت اختیار کرلیں، حسد و کینہ، بغض و فساد کا ذریعہ بن جائیں نسبتیں شخصیات کی طرف ہونا شروع ہو جائیں، مرکز و محور: غیر رسول بن جائے اور جب فرقوں میں منقسم کر دے تو یقیناً قابل غور امر ہے!

لمحہ فکریہ:

ایسے میں ہمارا کردار کیا ہونا چاہئے؟ کہ جس سے تمام مسلمان ایک امت، ایک جماعت بن جائیں۔ وہ ہے خالص قرآن وحدیث کی دعوت عام کرنا، واضح رہے صراط مستقیم کا واحد ذریعہ اور اتحاد امت کی واحد سبیل صرف قرآن وحدیث ہے۔ یہاں بھی بعض دل جلے تجاہل عارفانہ کی روش اپناتے ہوئے یہ نعرہ بلند کرتے ہیں کہ صرف قرآن وحدیث کہنے سے اجماع واجتہاد کا انکار ہو گیا حالانکہ جب اجتماع و اجتہاد کا ثبوت قرآن وحدیث سے ملتا ہے تو قرآن و حدیث کے ماننے میں اجماع واجتہاد کا ماننا خود بخود آ گیا۔
فافهم و تدبر جدا
قرآن و حدیث اور عمل سلف صالحین بھی اسی طرف رہنمائی فرماتے ہیں کہ اتفاق کا راستہ ایک ہی ہے اور وہ ہے کتاب وسنت ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا ‎﴿٥٩﴾‏
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور ان کی جو تم میں سے اصحاب امر ہیں۔ پھر اگر تم کسی چیز میں باہم اختلاف کرو تو اس کو اللہ اور رسول کی طرف لوٹا دو، اگرتم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو، یہ بہتر اور بہت اچھا انجام ہے۔‘‘
[النساء:۵۹]

یہ آیت کریمہ واضح دلیل ہے کہ تنازعہ (اختلاف) کی صورت میں قرآن وحدیث ہی کی طرف رجوع کرنا چاہئے اور یہ فرقہ واریت کے خاتمے کا بہترین و مجرب نسخہ ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
’’بہترین بات کتاب اللہ ہے اور بہترین ہدایت محمدﷺ کی سنت ہے۔‘‘
(صحیح مسلم: ۸۶۷)

آپ ﷺ نے فرمایا:
قد تركتكم على البيضاء ليلها كنهارها ، لا يزيغ عنها بعدي إلا هالك
میں تمہیں چمکتی (شریعت) پر چھوڑ رہا ہوں، اس کی رات (بھی) اس کے دن کی طرح روشن ہے، میرے بعد اس سے وہی پھرے گا جو ہلاک ہونے والا ہے۔
(سنن ابن ماجه: ۴۳ و اسناده صحیح)

اس قدر چمکتی شریعت اور روشن دین کو چھوڑ کر غیر نبی کی چوکھٹ پر بیٹھنا یا عام شخصیات کے دامن سے چمٹنا، اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارنے کے مترادف نہیں تو اور کیا ہے؟ ہمارے سلف صالحین کا یہ طرہ امتیاز تھا کہ وہ قرآن وسنت کے مقابلے میں کسی غیر کی بات کو حجت سمجھنا تو درکنار اسے درخور اعتنا بھی نہ جانتے تھے۔

سیدنا علیؓ نے فرمایا:
ما كنت لأدع سنة النبي الله لقول أحد۔
میں کسی شخص کے کہنے سے نبی ﷺ کی سنت نہیں چھوڑ سکتا۔
(صحیح بخاری: ۱۵۶۳)

سالم بن عبد اللہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ ملک شام کے ایک آدمی نے سید نا عبد اللہ بن عمرؓ سے حج تمتع کے بارے میں سوال کیا تو سیدنا عبداللہ بن عمرؓ نے فرمایا :
یہ حلال (جائز) ہے۔ تو شامی نے کہا: آپ کے والد محترم نے اس سے منع کیا ہے ۔ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ نے فرمایا تمھارا کیا خیال ہے کہ اگر میرے والد نے اس سے روکا ہو اور رسول اللہ ﷺ نے اسے کیا ہو (تو کیا) میرے والد کے حکم کی پیروی کی جائے گی یا رسول اللہ ﷺ کے حکم کی؟ اس شخص نے کہا : بلکہ رسول اللہ ﷺ کے حکم کی پیروی کی جائے گی، تو سیدنا ابن عمرؓ نے فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے اسے (حج تمتع کو) کیا (یعنی جائز قرار دیا) ہے۔
(سن ترمذی ۸۲۴ واسنادہ صحیح)

اتحاد امت میں ایک بڑی رکاوٹ ” تقلید ‘‘ بھی ہے جس نے امت کو پارہ پارہ کیا اور مختلف گروہوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں:
لا تــقــلــدوا دينكم الرجال … إلخ
اپنے دین میں آدمیوں کی تقلید مت کرو ۔۔۔۔۔ الخ
(السنن الکبری للبہیقی ۰٫۲ ا وسندہ صحیح)

سیدنا معاذ بن جبلؓ فرماتے ہیں:
أما العالم فإن اهتدى فلا تقلدوه دينكم
’’عالم اگر سیدھے راستے پر بھی ہو تو اس کی اپنے دین میں تقلید نہ کرو ۔‘‘
(جامع بیان العلم وفضلہ ۲/۱۱)

خلاصہ:

ہماری اس تحریر کا خلاصہ یہ ہے کہ وقت تقاضا کر رہا ہے کہ امت مسلمہ متحد و منظم ہو اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم صرف قرآن وحدیث کو رہنما تسلیم کر کے اس پر عمل پیرا ہوں ۔ یہی فرقہ واریت کے خاتمے کا ذریعہ ہے۔ اس سے نہ صرف دنیا میں عزت کا حصول ہوگا بلکہ آخرت میں بھی سرخرو ہوں گے۔
ان شاء اللہ

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
لنکڈان
ٹیلی گرام
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل