فرض نماز کے فوراً بعد اجتماعی دعا کرنا
یہ تحریر محترم ابوحمزہ عبدالخالق صدیقی کی کتاب نماز مصطفیٰ علیہ الصلوۃ والسلام سے ماخوذ ہے۔

● فرض نماز کے فوراً بعد اجتماعی دعا :

عبادات توفیقی ہیں، لہٰذا عبادات کے اصل عدد، کیفیت اور جگہ کے بارے میں کسی شرعی دلیل کی بنیاد پر ہی یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ مشروع ہے، تو اس ضابطہ کی بنیاد پر جب ہم اس اجتماعی دعاء کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ نبی کریم ﷺ کی سنت ، قول یا فعل یا تقریر سے قطعاً ثابت نہیں ہے، اور ساری خیر و برکت آپ کی سنت کے اتباع میں ہے اور اس مسئلہ میں قطعی دلائل سے ثابت جو آپ کی سنت ہے اور جس کے مطابق آپ کے خلفاء راشدین سید نا ابو بکر، عمر، عثمان اور علیؓ ، حضرات صحابہ کرامؓ اور تابعینؒ نے عمل کیا وہ اجتماعی طور پر دعا کا نہ کرنا ہے، اور جو شخص رسول اللہ ﷺ کی اس سنت کے خلاف عمل کرتا ہے، تو وہ مردود عمل ہے۔ جیسا کہ سرور کائنات ﷺ نے فرمایا:

﴿من عمل عملا ليس عليه أمرنا فهو رد .﴾
صحیح مسلم ، کتاب الأقضية ، رقم : ٤٤٩٣.

’’جو کوئی ایسا عمل کرے جو ہمارے امر کے مطابق نہ ہوتو وہ (عمل) مردود ہے۔‘‘

لہٰذا جو لوگ سلام کے بعد اجتماعی دعا کرتے ہیں، ان سے ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ اپنے اس عمل کے اثبات میں کوئی دلیل پیش کریں ورنہ یہ عمل مردود قرار پائے گا۔ نمازی کو چاہیے کہ نماز کی بے شمار دعائیں ہیں ان کو یاد کرے، اور نماز کے اندر ان کو پڑھے ، بصورتِ دیگر نماز مکمل کرنے کے بعد مسنون دعائیں اور اذکار پڑھے، اور مسنون ذکر واذکار کے بعد اگر کوئی انفرادی سطح پر دعا مانگنا چاہے تو مانگ سکتا ہے۔

واللہ اعلم بالصواب !

فرض نماز کے بعد ایک آواز کے ساتھ اجتماعی دعا کے متعلق شیخ ابن باز اور بحوث العلمیہ والافتاء کی فتوی کمیٹی آف سعودی عرب سے سوال ہوا تو انہوں نے جواب دیا:

’’امام کے سلام پھیرنے کے بعد ایک ہی آواز میں اجتماعی دعا کے بارے میں ہمیں کوئی ایسی دلیل معلوم نہیں جو اس کی مشروعیت پر دلالت کرتی ہو۔‘‘

’’وبالله التوفيق، وصلى الله على نبينا محمد و آله وصحبه وسلم .‘‘
فتاوىٰ اسلاميه : ٤١٦/١.

◈ شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ:

❀ شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں:

’’نماز کے بعد امام اور مقتدیوں کا مل کر دعا کرنا بدعت ہے اور نبی کریم ﷺ نماز کے بعد زمانہ میں یہ طریقہ نہ تھا۔‘‘
مجموعة فتاوىٰ ابن تیمیه : ٥١٩/٢٢.

◈ علامہ ابن القیمؒ :

’’نماز سے سلام پھیرنے کے بعد دُعا کرنا خواہ منہ جانب قبلہ ہو یا مقتدیوں کی طرف، رسول اللہ ﷺ کے طریقہ میں ہرگز نہ تھا اور نہ اس کی نقل آنحضرت ﷺ سے اسناد صحیح یا حسن کے ساتھ ملتی ہے ۔‘‘
زاد المعاد : ٢٥٧/١.

◈ مولانا انور شاہ کشمیری دیو بندی:

جاننا چاہیے بے شک یہ دعا مروج ہمارے زمانہ میں جو فرض نمازوں کے بعد کی جاتی ہے، امام اور مقتدی سب مل کر دعا کرتے ہیں، ہاتھ اٹھاتے ہیں، آمین کہتے ہیں، اس طرح کی دعا نبی اکرم ﷺ کے زمانے میں نہ تھی ۔
التحقيق الحسن، ص : ١٧.

◈ مولانا عبد الحی لکھنوی حنفی:

’’یہ طریقہ جو ہمارے زمانہ میں رواج ہے کہ سلام پھیرنے کے بعد امام ہاتھ اٹھا کر دعا کرتا ہے اور مقتدی آمین کہتے ہیں ۔ آنحضرت ﷺ کے زمانے میں نہ تھا جیسے کہ ابن قیم نے زاد المعاد (۱/ ۲۵۷) میں اس کی صاف تصریح کی ہے۔‘‘
مجموعة الفتاوى بحواله التحقيق الحسن، ص : ۲۰.

◈ رشید احمد صاحب لدھیانوی سابق مفتی دارالعلوم کراچی :

❀ آپ فرماتے ہیں:

’’امام کے ساتھ بحیثیت اجتماعی دعا مانگنا حضور اکرم ﷺ ، صحابہ کرامؓ ، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ مجتہدینؒ میں سے کسی سے بھی ثابت نہیں جس کا وجود ہی ثابت نہ ہوا، اسے وجوب کا درجہ دینا کیسے صحیح ہوسکتا ہے۔ جو امر حضور اکرم ﷺ اور قرون مشہود لہا بالخیر سے ثابت نہ ہو، اسے تصور کرنا یہ سمجھنے کے مترادف ہے (نعوذ باللہ) حضور ﷺ اور صحابہ کرامؓ نے دین کو سمجھا نہیں یا پوری طرح پہنچایا نہیں۔ اس لیے دین ناقص رہا جس کی تکمیل آج کر رہے ہیں۔ حالانکہ ارشاد ہے:

﴿الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا﴾

﴿المائدة : ٣﴾

’’آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت آپ پر مکمل کر دی ہے اور آپ کے لیے اسلام کو دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے۔‘‘

آج ہم اپنے عمل سے اس آیت کریمہ (قول رب العالمین) کی تکذیب کر رہے ہیں۔
احسن الفتاوىٰ : ١٢٢/١.

◈ ذکر کی فضیلت:

ذاکرین کے لیے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ﴾

﴿الرعد : ۲۸﴾

’’آگاہ رہیے کہ اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو اطمینان ملتا ہے۔‘‘
اور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

’’اپنے رب کو یاد کرنے والے اور نہ کرنے والے کی مثال زندہ اور مردہ جیسی ہے۔‘‘
صحیح بخاری، کتاب الدعوات، رقم : ٦٤٠٧ ـ صحيح مسلم، کتاب صلاة المسافرين رقم : ۷۷۹ .

❀ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَىٕنُّ الْقُلُوْبُ﴾

﴿الاحزاب : ٤١﴾

’’اے ایمان والو! اللہ کو بہت ہی کثرت سے یاد کرو ۔‘‘

اور مزید فرمایا:

﴿ وَالذَّاكِرِينَ اللَّهَ كَثِيرًا وَالذَّاكِرَاتِ أَعَدَّ اللَّهُ لَهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا﴾

(الاحزاب : ٣٥)

’’اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے مرد اور عورتیں اللہ نے ان کے لیے مغفرت اور اجر عظیم تیار کر رکھا ہے۔‘‘

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے