فرض نماز کے بعد اجتماعی و انفرادی دعا کا شرعی حکم
ماخوذ : فتاویٰ راشدیہ، صفحہ نمبر 313

سوال

فرض نمازوں کے بعد اجتماعی اور انفرادی دعا کرنا سنت سے ثابت ہے یا بدعت؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جامع ترمذی میں حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ سے دریافت کیا گیا:
"کون سی دعا زیادہ سنی جاتی ہے (مقبول ہوتی ہے)؟”
آپ ﷺ نے فرمایا:

"رات کا آخری حصہ اور فرائض (پانچوں وقتوں کی نمازوں) کے پیچھے۔”
امام ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ فرضی نمازوں کے بعد بھی دعا کی قبولیت کا زیادہ امکان ہے۔ دعا بغیر ہاتھ اٹھائے بھی کی جا سکتی ہے اور ہاتھ اٹھا کر بھی، کیونکہ ہاتھ اٹھانے کا ذکر بہت سی احادیث قولیہ و فعلیہ میں آیا ہے اور یہ دعا کے خاص آداب میں سے ہے۔

(1) دعامیں ہاتھ اٹھانے کی احادیث

سنن الكبري للامام البيهقي (٢/١٣٣) میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

((وهذا الدعاء فرفع يديه حذو منكبيه……الخ))

یعنی آپ ﷺ نے اپنے ہاتھ مبارک کندھوں کے برابر اٹھائے اور فرمایا: "یہ ہے دعا”۔ اس سے معلوم ہوا کہ دعا میں ہاتھ اٹھانا آدابِ دعا میں سے ہے۔

صحیح ابن حبان وغیرہ میں حضرت سلمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

"اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے: جب میرا بندہ دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتا ہے تو مجھے حیا آتی ہے کہ میں اس کے ہاتھوں کو خالی لوٹاؤں۔”

اس سے واضح ہوا کہ دعا میں ہاتھ اٹھانا مندوب اور مستحب ہے۔

❀ کئی مواقع پر احادیث صحیحہ میں نبی کریم ﷺ کا دعا میں ہاتھ اٹھانا مروی ہے، حتیٰ کہ صحیح مسلم میں صلوۃ الخوف کے بعد ہاتھ اٹھانے کا بھی ذکر ہے۔

لہٰذا جب دعا میں ہاتھ اٹھانا سنت اور مستحب ہے تو فرض نماز کے بعد بھی کوئی دعا کرے تو ہاتھ اٹھانے میں کوئی قباحت نہیں، خصوصاً جب کہ ترمذی کی حدیث سے ثابت ہے کہ فرض نماز کے بعد دعا کی قبولیت کے زیادہ مواقع ہیں۔

❀ علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے ابن ابی شیبہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے نمازِ فجر کے بعد دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے۔ اگرچہ یہ روایت ابن ابی شیبہ کی ’’مصنف‘‘ میں نظر نہیں آئی، ممکن ہے کہ ان کی ’’المسند‘‘ میں ہو۔

خلاصہ یہ ہے کہ مذکورہ احادیث سے نمازِ فرض کے بعد دعا کے لیے ہاتھ اٹھانا ثابت اور مستحب ہے۔

اجتماعی دعا کا ثبوت

حدیث بخاری سے استدلال:

صحیح بخاری میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جمعہ کے دن نبی کریم ﷺ خطبہ دے رہے تھے، ایک آدمی آیا اور قحط سالی کی شکایت کی۔ آپ ﷺ نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو لوگوں نے بھی اپنے ہاتھ اٹھا لیے۔

◈ اس حدیث میں یہ نہیں ہے کہ آپ ﷺ نے لوگوں کو کہا ہو کہ تم بھی ہاتھ اٹھاؤ، بلکہ جب آپ ﷺ نے ہاتھ اٹھائے تو صحابہ نے بھی فوراً اپنے ہاتھ اٹھا لیے۔
◈ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کا معمول یہی تھا کہ جب آپ ﷺ دعا میں ہاتھ اٹھاتے تو وہ بھی ساتھ اٹھاتے۔
◈ اگرچہ یہ حدیث فرض نماز کے بعد اجتماعی دعا پر براہِ راست نہیں ہے، لیکن اجمالی طور پر اجتماعی دعا کا ثبوت اس سے ظاہر ہے۔

(2) قولی حدیث اجتماعی دعا کے بارے میں

امام حاکم رحمہ اللہ نے اپنی مستدرک (٣/٣٤٧) میں روایت کیا ہے کہ حضرت حبیب بن مسلمہ الفیہری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:

((لا يجتمع ملا فيدعو بعضهم ويؤمن البعض إلا أجابهم الله.))

"یعنی کوئی جماعت بھی ایک جگہ جمع ہو کر دعا کرے، ایک دعا مانگے اور دوسرے آمین کہیں تو اللہ تعالیٰ ان کی دعا قبول فرماتا ہے۔”

◈ اس حدیث کی سند حسن ہے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اس کو اپنی تلخیص میں برقرار رکھا اور کوئی جرح نہیں کی۔
◈ ابن لہیعہ کے بارے میں کچھ کلام ہے، لیکن جب ان سے بڑے ائمہ جیسے عبداللہ بن مبارک اور ابوعبدالرحمن المقری روایت کریں تو وہ روایت مقبول ہوتی ہے۔ یہاں بھی راوی ابوعبدالرحمن المقری ہیں، اس لیے یہ روایت صحیح ہے۔
◈ مزید یہ کہ ابن لہیعہ نے یہاں "حدثني” کہہ کر سماع کی صراحت کی ہے، اس لیے روایت قوی ہے۔ اسی وجہ سے حافظ ذہبی بھی خاموش رہے۔

اس حدیث سے اجتماعی دعا کے مندوب اور مستحسن ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔

"ملا” کے لفظ سے عمومیت:

◈ "ملا” کا لفظ عام ہے، یعنی ہر جماعت مراد ہے: خواہ فرض نماز کی جماعت ہو، یا علم و تبلیغ کا اجتماع، یا جلسہ، یا فوجی جماعت وغیرہ۔
◈ چونکہ کوئی دلیل نہیں کہ اس عموم سے فرض نماز مستثنی ہے، اس لیے فرض نماز کے بعد کی جماعت بھی اس میں شامل ہوگی۔

خلاصہ اور نتیجہ

◈ کوئی حدیث ایسی نہیں ملی جس میں نبی کریم ﷺ نے فرض نماز کے بعد دعا کے لیے ہاتھ اٹھانے سے منع فرمایا ہو۔
◈ نہ ہی یہ ملتا ہے کہ آپ ﷺ نے کبھی فرض نماز کے بعد ہاتھ نہیں اٹھائے۔
◈ صرف عدمِ ذکر سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ عمل منع ہے۔

لہٰذا:
◈ فرض نماز کے بعد انفرادی اور اجتماعی دعا کرنا جائز اور مندوب ہے۔
◈ دعا میں ہاتھ اٹھانا سنت اور مستحب ہے۔
◈ البتہ اس عمل کو نماز کا لازمی حصہ سمجھنا یا یہ عقیدہ رکھنا کہ دعا کے بغیر نماز ناقص ہے، یا نہ کرنے والوں پر اعتراض کرنا ناجائز ہے۔ ایسی صورت میں یہ عمل بدعت بن جائے گا۔

حضرت مولانا عبدالرحمن مبارک پوری رحمہ اللہ نے بھی تحفۃ الاحوذی شرح الترمذی میں یہی وضاحت کی ہے کہ اگر اجتماعی دعا کو نماز کا لازمی جزو نہ سمجھا جائے اور نہ کرنے والوں پر نکیر نہ کی جائے تو یہ عمل ان شاء اللہ جائز ہے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے