سوال : نماز کے بعد مروجہ اجتماعی دعا کی شرعی حیثیت کے متعلق آگاہ فرما دیں ؟
جواب : دور حاضر میں فرض نمازوں کے بعد امام اور مقتدی مل کر جو اجتماعی دعا کا اہتمام کرتے ہیں اس کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی ثبوت صحیح سند کے ساتھ موجود نہیں، نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ایسی کوئی بات پایہ ثبوت کو پہنچتی ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دن رات میں پانچ نمازیں پڑھاتے تھے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ کی اقتدا میں پڑھتے تھے۔ اگر اس دعا کا کہیں وجود ہوتا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ضرور ذکر فرماتے۔ جس طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے باقی نماز کے مسائل بیان کیے ہیں اس طرح کہیں اس اجتماعی دعا کا ذکر بھی ضرور کیا جاتا۔ بعض لوگ تو اس حد تک آگے نکل گئے ہیں کہ جو لوگ اس مسئلے پر عمل پیرا نہیں ہوتے انہیں بے عمل اور بہت بڑے گناہ کے مرتکب سمجھتے ہیں۔ بہرکیف نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی صحیح تو کجا ضعیف حدیث میں بھی امام اور مقتدیوں کا مل کر اہتمام کے ساتھ دعا کرنا ثابت نہیں۔ البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرض نمازوں کے بعد کچھ اذکار منقول ہیں جو ہم بحمد للہ پڑھتے ہیں، جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں :
➊ ہر نماز کے بعد تکبیر کہنا اور تین بار استغفار پڑھنا۔
➋ اللّٰهُمَّ أَنْتَ السَّلَامُ وَمِنْكَ السَّلَامُ، تَبَارَكْتَ يَا ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ
➌ معوذتین (سورۃ الفلق اور سورۃ الناس) پڑھنا۔
➍ رَبِّ اَعِنِّيْ عَلٰي ذِكْرِكَ وَشُكْرِكَ وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ
➎ آیت الکرسی پڑھنا۔
➏ 33 مرتبہ سبحان اللہ، 33 مرتبہ الحمد للہ اور 34 مرتبہ اللہ اکبر پڑھنا۔
کئی احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات نماز کے بعد سلام پھیر کر جلد اٹھ جاتے تھے۔ جیسا کہ حضرت عقبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
قَالَ : صَلَّيْتُ وَرَاءَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِينَةِ الْعَصْرَ، فَسَلَّمَ ثُمَّ قَامَ مُسْرِعًا فَتَخَطَّى رِقَابَ النَّاسِ إِلَى بَعْضِ حُجَرِ نِسَائِهِ [بخاري، كتاب الأذان : باب من صلى بالناس فذكر حاجة فتغطاهم 851 ]
”انہوں نے بیان کیا کہ میں نے مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز عصر ادا کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا، پھر جلدی سے اٹھ کھڑے ہوئے اور ازواجِ مطہرات میں سے کسی ایک کے حجرے کی طرف لوگوں کی گردنیں پھلانگتے ہوئے چلے گئے۔ “
اسی طرح سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِحْدَى صَلَاتَيِ الْعَشِيِّ، قَالَ ابْنُ سِيرِينَ : سَمَّاهَا أَبُو هُرَيْرَةَ، وَلَكِنْ نَسِيتُ أَنَا، قَالَ : فَصَلَّى بِنَا رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ سَلَّمَ، فَقَامَ إِلَى خَشَبَةٍ مَعْرُوضَةٍ فِي الْمَسْجِدِ فَاتَّكَأَ عَلَيْهَا كَأَنَّه غَضْبَانُ [ بخاري، كتاب الصلاة : باب تشبيك الاصابع فى المسجد 482]
” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ظہر و عصر کی نمازوں میں سے کوئی ایک نماز پڑھائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دو رکعتیں پڑھائیں پھر سلام پھیرا۔ پس مسجد میں گاڑھی ہوئی ایک لکڑی کی جانب کھڑے ہو کر اس پر ٹیک لگائی گویا آپ غصے میں ہیں۔ “
ان دونوں حدیثوں میں فَسَلَّمَ فَقَامَ ہے اور اہلِ علم حضرات جانتے ہیں کہ ”ف“ عربی زبان میں تعقیب مع الوصل کے لئے ہوتی ہے، جس سے معلوم ہوا کہ آپ سلام پھیرتے ہی اٹھ گئے۔ لہٰذا اذکار مسنونہ تو نمازوں کے بعد ثابت ہیں اور کبھی کسی کام کی بنا پر سلام پھیرتے ہی اٹھ جانا بھی درست ہے لیکن کسی صحیح حدیث میں امام اور مقتدیوں کا مل کر اہتمام کے ساتھ دعا کرنا وارد نہیں ہوا۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اذان اور اقامت کے درمیان تثویب کا بدعت ہونا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
وكذٰلك الجهر بالدعاء عقيب الصلاة مثل دعاء الامام والمأمومين جميعا عقيب الصلوة لم يكن و لكنه ثبت انهم كانوا يجهرون بالذكر فالذكر ثابت و من اعتقد ما لم يدل عليه دليل شرعي قربة فهو محطي ظالم [ محتصر الفتاوٰي المصرية 40۔ 41]
”اسی طرح نمازوں کے بعد جہری طور پر دعا کرنا، جیسا کہ امام اور مقتدیوں کا مل کر نماز کے بعد دعا کرنا ہے، بدعت ہے، یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نہیں تھا۔ لیکن ان سے ثابت ہے کہ وہ جہری ذکر کرتے تھے۔ پس ذکر کرنا ثابت ہے (نہ کہ اجتماعی دعا) جس نے کسی ایسی چیز کے نیک ہونے کا اعتقاد کر لیا جس پر کوئی شرعی دلیل موجود نہیں، وہ خطاکار و ظالم ہے۔ “
اسی طرح ایک اور مقام پر رقمطراز ہیں :
و اما دعاء الامام والمأمومين جميعا عقيب الصلاة فلم ينقل احد عن النبى صلى الله عليه وسلم فهٰهناشيئان : احدهما : دعاء المصلي المنفرد كدعاء المصلي لصلاة الاستخارة وحده اماما كان او ماموما . والثاني : دعاء الامام و المامومين جميعا فهذا الثاني لا ريب ان النبى صلى الله عليه وسلم لم يفعله فى اعقاب المكتوبات كما كان يفعل الاذكار الماثورة عنه اذ لو فعل ذلك لنقل عنه اصحابه ثم التابعون ثم العلماء كما نقلو اما هو دون ذلك [الفتاوٰي الكبرٰي لابن تيمية 1/ 158]
”بہرحال فرائض کے بعد امام اور مقتدیوں کا مل کر دعا کرنا تو کسی ایک آدمی نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل نہیں کیا۔ درحقیقت یہاں دو چیزیں ہیں :
➊ ایک نمازی کا دعا کرنا جیسا کہ نمازی دعائے استخارہ وغیرہ کرتا ہے خواہ نمازی امام ہو یامقتدی۔
➋ امام اور مقتدیوں کا مل کر دعا کرنا، یہ دوسری چیز بلاشبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرض نمازوں کے بعد نہیں کی۔ جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اذکار کیا کرتے تھے جو آپ سے (کتب احادیث میں) منقول ہیں۔ اگر اس موقع پر آپ اجتماعی دعا کرتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ سے ضرور نقل کرتے پھر تابعین پھر دیگر علماء جیسا کہ انہوں نے اس سے کم درجہ کی اشیاء آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کی ہیں۔ “
اسی طرح امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اسے ایک اور مقام پر صراحت کے ساتھ بدعت قرار دیا ہے۔ [مجموع الفتاويٰ 519/22]
امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وَاَمَّا الدُّعَاءُ بَعْدَ السَّلَامِ مِنَ الصَّلَاةِ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةِ اَوِ الْمَأْمُوْمِيْنَ فَلَمْ يَكُنْ ذٰلِكَ مِنْ هَدْيِهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اَصْلًا وَلَا رُوِيَ عَنْهُ بِاِسْنَادٍ صَحِيْحٍ وَلَاحَسَنٍ [زاد المعاد 257/1]
”باقی رہا نماز سے سلام پھیرنے کے بعد قبلہ رخ بیٹھ کر یا مقتدیوں کی طرف پھر کر اجتماعی دعا کرنا تو یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ قطعاً نہ تھا اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح سند کے ساتھ اور نہ حسن سند کے ساتھ نقل کیا گیا ہے۔ “
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور امام ابن قیم رحمہ اللہ کی اس صراحت سے واضح ہوا کہ اجتماعی دعا جو ہمارے دور میں رائج ہے یہ بدعت ہے، اس کا کوئی شرعی ثبوت موجود نہیں۔
دیو بندی علماء میں سے مولانا انور شاہ کاشمیری رحمہ اللہ رقمطراز ہیں :
نَعَمْ اَلْاَدْعِيَةُ بَعْدَ الْفَرِيْضَةِ ثَابِتَةٌ كَثِيْرًا بِلَا رَفْعِ الْيَدَيْنِ وَبِدُوْنِ الْاِجْتِمَاعِ [ العرف الشذي ص : 86]
” ہاں فرض نمازوں کے بعد بہت سی دعائیں بغیر ہاتھ اٹھائے اور بغیر اجتماعی شکل کیے ثابت ہیں۔ “
ایک اور مقام پر لکھتے ہیں :
وَلَمْ تَثْبُتْ شَاكِلَةُ الْجَمَاعَةِ فِيْهَا كَمَا هُوَ مَعْرُوْفٌ الْآنَ [العرف الشذي ص : 86]
”اور دعا کی اجتماعی ہیئت جس کا آج کل رواج ہے، ثابت نہیں۔ “
مولوی فیض اللہ بنگلہ دیشی لکھتے ہیں :
”شریعت میں ایسی دعا کا اصلاً و قطعاً کوئی ثبوت نہیں، نہ تعامل سلف سے اور نہ احادیث سے، خواہ وہ صحیح ہوں یا ضعیف یا موضوع اور نہ کسی فقہ کی عبارت ہی سے۔ یہ دعا یقیناًً بدعت ہے۔“ [أحكام الدعوات المروجة ص/21]
، مزید تفصیل کے لیے دیکھیے : دعا کے بعد الفرائض کا مسنون طریقہ (ص/22) از مفتی محمد ابراھیم صادق آبادي۔
مولوی رفیق دلاوری جو مولوی محمود الحسن دیوبندی کا شاگرد ہے لکھتا ہے :
”الغرض فرض نماز کے سلام کے بعد امام اور مقتدیوں کا مل کر دعا مانگنا بدعت سیئہ ہے۔ “ [عمادالدين ص/397]
علاوہ ازیں اس مسئلے پر اب دیوبندی علماء اہل حدیث علماء جیسا موقف اختیار کر رہے ہیں۔ رشید احمد صاحب لدھیانوی نے اپنے احسن الفتاویٰ میں اسے بدعت شنیع قرار دیا ہے۔ اسی طرح ان کے شاگرد مفتی محمد ابراہیم نے ”دعا بعد الفرائض کا مسنون طریقہ“ لکھ کر حنفیہ میں جو بالخصوص یہ رواج ہے، اس کی تردید کی ہے۔ باقی رہا فتاویٰ نذیریہ میں اس موضوع پر پیش کردہ روایات کا تجزیہ تو اس کی مفصل بحث کے لیے صلاۃ الرسول مخرج کامطالعہ کریں۔ جس میں بالتفصیل ان روایات کا
ضعف ذکر کیا گیا ہے اور ابن ابی شیبہ کی جو روایت فتاوٰی نذیریہ میں مرقوم ہے اس میں رفع يديه و دعا کے الفاط مطبوعہ ابن ابی شیبہ میں نہیں ملتے۔ باقی یہ مفصل روایت جامع ترمذی وغیرہ میں موجود ہے اور اس میں یہ الفاظ نہیں ہیں۔
بہرکیف اجتماعی دعا کا اہتمام کرنا اور اسے سنت سمجھنا غلط ہے۔ فرض نمازوں کے بعد جو مسنون اذکار ہیں انہیں پڑھیں اور یاد کریں۔ کئی لوگ بلا تحقیق یہ بات کہہ دیتے ہیں کہ اہل حدیث نماز کے بعد دعا نہیں کرتے۔ حالانکہ یہ بات بالکل غلط ہے۔ ہم نماز کے بعد کچھ وقت بیٹھ کر وہ مسنون اذکار و ادعیہ جو ثابت ہیں، پڑھتے ہیں۔
اصل میں جو لوگ یہ دیکھتے ہیں کہ امام صاحب نے نماز کے بعد ہاتھ نہیں اٹھائے تو وہ فوراً فتویٰ عائد کر دیتے ہیں کہ اس نے دعا نہیں مانگی۔ دعاکے لیے ہاتھ اٹھانا لازم نہیں بلکہ بغیر ہاتھ اٹھائے بھی دعا مانگنا درست ہے۔ مثلاً مسجد میں آنے اور باہر جانے کی دعا، بیت الخلاء میں داخل اور خارج ہونے کی دعائیں وغیرہ احادیث میں موجود ہیں۔ لیکن یہاں کبھی کسی نے جھگڑا نہیں کیا کہ فلاں آدمی نے دعا نہیں مانگی اور نہ یہاں ہاتھ اٹھائے جاتے ہیں۔ حقیقت میں جب کسی چیز کا غلط رواج پڑ جاتا ہے تو پھر جب لوگ اس کے خلاف عمل دیکھتے ہیں تو وہ فوراً انکار کر دیتے ہیں۔ یہ طرز عمل اچھا نہیں ہے۔ اگر مسئلہ کا علم نہ ہو تو اس کی تحقیق کر لینی چاہیے۔ اہل حدیث اسی بات کی دعوت دیتے ہیں کہ اندھادھند پیروی نہ کی جائے بلکہ تحقیق والی لائن اختیار کی جائے۔ ہر آدمی اپنی ہمت و بساط کے مطابق مسئلے کی تحقیق کرے۔ اہلِ علم سے رابطہ کرے۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ (آمین)