فرضی طلاق نامہ کا شرعی حکم: کیا ایسی طلاق واقع ہوتی ہے؟
ماخوذ : فتاویٰ راشدیہ، صفحہ نمبر 459

سوال

علماء دین کی خدمت میں عرض ہے کہ جاوید اختر بن دین محمد، رہائشی لاڑکانہ شہر، کا نکاح مسمات ناہید اختر بنت ڈاکٹر شبیراحمد پٹھان کے ساتھ ہوا۔ اس نکاح سے ایک بیٹی بھی پیدا ہوئی ہے۔ اس جوڑے کی شادی کو تین سال اور ایک مہینہ گزر چکے ہیں۔

کچھ دن پہلے جاوید اختر نے راہ چلتے ہوئے ایک عرض نویس کو اپنی طبیعت کے متعلق بتایا۔ اس عرض نویس نے اپنی طرف سے ایک طلاق نامہ تیار کر لیا اور اس میں طلاق دینے والے، گواہوں کے نام اور فرضی دستخط شامل کر کے یہ طلاق نامہ ناہید اختر کو پہنچا دیا۔

حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اس جوڑے کی ایک ڈیڑھ سالہ بیٹی ہے جو اپنی ماں کے ساتھ باپ کے گھر آتی رہتی ہے، جس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ دونوں میاں بیوی آپس میں راضی ہیں اور صرف معاشرتی شکوک و شبہات سے خوف زدہ ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ:
کیا اس طرح کا فرضی طلاق نامہ شرعی حیثیت رکھتا ہے، جبکہ خاوند کو اس کا نہ علم تھا، نہ ہی اس نے ایسا کچھ کیا ہے؟ براہ کرم شرعی اصولوں کی روشنی میں اس مسئلے کا فیصلہ بیان فرمائیں۔

(سائل: محمد علی بن حاجی محمد اسماعیل، ڈیرو)

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ بات سمجھنی چاہیے کہ اگر خاوند خود یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ اس نے کوئی طلاق لکھ کر نہیں دی اور نہ ہی کسی کو ایسا لکھنے کا کہا ہے، تو ایسی صورت میں یہ طلاق واقع نہیں ہوگی۔

◄ اگر کسی غیر متعلقہ شخص نے اپنی طرف سے طلاق نامہ تیار کر لیا ہے، تو یہ شرعی حیثیت نہیں رکھتا۔
◄ مزید یہ کہ گواہ بھی موجود نہیں ہیں اور جو فرضی نام لکھے گئے ہیں، وہ بھی جھوٹے اور بے بنیاد ہیں۔
◄ خاوند نے نہ اس طلاق نامہ کو پڑھا ہے، نہ لکھوایا ہے اور نہ اس کی اجازت دی ہے۔

لہٰذا شرعی اعتبار سے یہ طلاق نہیں ہوئی۔ کیونکہ طلاق کے لیے واضح اصول اور ضابطے موجود ہیں، اور اس میں گواہوں کی موجودگی بھی ضروری ہے۔ جبکہ اس معاملے میں نہ اصول پورے ہوئے ہیں اور نہ ہی گواہ موجود ہیں۔

خلاصہ نکات:

➊ عرض نویس نے فرضی نام اور دستخط شامل کیے، اس سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ گواہ سرے سے موجود ہی نہیں ہیں۔
➋ خاوند نے نہ یہ طلاق نامہ لکھا ہے، نہ لکھوایا ہے اور نہ ہی اس سے واقف ہے۔
لہٰذا شرعی حکم یہی ہے کہ یہ طلاق معتبر نہیں ہے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے