سوال
کیا تحیۃ المسجد کی نماز طلوع فجر (صبح صادق) کے بعد ادا کی جا سکتی ہے؟ علماء کا کہنا ہے کہ تحیۃ المسجد ہر وقت مسجد میں داخل ہونے پر پڑھی جاتی ہے، چاہے صبح صادق کے بعد ہو، اذان سے پہلے یا بعد۔ اگر کوئی شخص فجر کی سنتیں گھر میں پڑھ کر آیا ہو تو کیا مسجد میں تحیۃ المسجد کی نماز پڑھے گا؟ اور اگر وہ سنتیں گھر پر نہ پڑھ کر مسجد آئے تو کیا مسجد میں سنتیں اور تحیۃ المسجد دونوں ادا کرے گا؟
جواب
الحمد للّٰہ، والصلاۃ والسلام علیٰ رسول اللّٰہ، أما بعد!
آپ نے تحیۃ المسجد کے متعلق علماء کا یہ قول نقل کیا ہے کہ:
’’تحیۃ المسجد ہر وقت اور جس وقت مسجد میں آئیں پڑھنی ہیں، اور صبح طلوع صادق کے بعد بھی، خواہ اذان سے پہلے یا بعد۔‘‘
علماء کے اس قول کی دلیل نبی کریم ﷺ کا یہ فرمان ہے:
«إِذَا دَخَلَ أَحَدُكُمُ الْمَسْجِدَ فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ أَنْ يَجْلِسَ»
(بخاری – ابواب المساجد – باب إذا دخل المسجد فليركع ركعتين، مسلم – صلاۃ المسافرین – باب استحباب تحیۃ المسجد برکعتین)
ترجمہ:
"جب تم میں سے کوئی مسجد میں داخل ہو تو بیٹھنے سے پہلے دو رکعت نماز ادا کرے۔”
اس حدیث میں "إِذَا دَخَلَ أَحَدُكُمُ” کا لفظ عام ہے، جو مسجد میں داخل ہونے کے تمام اوقات کو شامل کرتا ہے، اس لیے علماء کا یہ قول درست، صائب اور صحیح ہے۔
اشکال اور اس کا جواب
کچھ لوگوں کو اس حدیث سے اشکال ہوتا ہے:
«لاَ صَلَاةَ بَعْدَ الْفَجْرِ إِلَّا رَكْعَتَيِ الْفَجْرِ»
ترجمہ:
"فجر کے بعد کوئی نماز نہیں سوائے فجر کی دو رکعتوں کے۔”
یہ اشکال درست نہیں، کیونکہ اس حدیث میں بلاوجہ و سبب نفلی نماز کی ممانعت بیان کی گئی ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ طلوع فجر کے بعد فجر کی فرض نماز پڑھنا ضروری ہے، اور اگر کوئی نماز فوت ہو گئی ہو تو اس کی قضا بھی اسی وقت ممکن ہے۔
مزید یہ کہ حدیث میں رَكْعَتَيِ الْفَجْرِ کو مستثنیٰ کیا گیا ہے، حالانکہ وہ بھی ایک نفلی نماز ہے لیکن باعث و سبب کے ساتھ۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہاں بلاسبب نفلی نماز کی ممانعت مراد ہے، نہ کہ ہر قسم کی۔
مزید توضیح
جیسا کہ حدیث:
«لاَ صَلَاةَ بَعْدَ الْفَجْرِ إِلَّا رَكْعَتَيِ الْفَجْرِ»
میں بلاسبب نفلی نماز کی نفی ہے، ویسے ہی ایک اور حدیث ہے:
«لاَ صَلَاةَ بَعْدَ الْفَجْرِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، وَلَا صَلَاةَ بَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ»
(بخاری – مواقیت الصلاۃ – باب الصلاۃ بعد الفجر حتی ترتفع الشمس، مسلم – صلاۃ المسافرین – باب الأوقات التی نھی من الصلاۃ فیھا)
ترجمہ:
"فجر کے بعد طلوع شمس تک اور عصر کے بعد غروب شمس تک کوئی نماز نہیں۔”
یہاں بھی بغیر کسی شرعی سبب کے نفل نماز کی ممانعت مراد ہے۔
نتیجہ
لہٰذا، اگر کوئی شخص مسجد میں صبح صادق کے بعد داخل ہو، چاہے اذان سے پہلے یا بعد، تو وہ تحیۃ المسجد کی دو رکعت نماز پڑھ سکتا ہے، بشرطیکہ اس کا کوئی شرعی سبب ہو جیسے مسجد میں داخل ہونا۔
اگر فجر کی سنتیں گھر میں پڑھ چکا ہو تو مسجد میں صرف تحیۃ المسجد پڑھے۔
اگر سنتیں گھر میں نہ پڑھی ہوں تو وہ مسجد میں داخل ہو کر فجر کی سنتیں ادا کرے، اور چونکہ فجر کی سنتیں تحیۃ المسجد کی بھی حیثیت رکھتی ہیں (کیونکہ دونوں کا مقصد ایک ہی وقت میں پورا ہو جاتا ہے)، اس لیے الگ سے تحیۃ المسجد ادا کرنا ضروری نہیں۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب