فجر کے بعد بیٹھنا اور دو رکعت کا حج و عمرہ جیسا اجر؟
ماخوذ :فتاوی علمیہ جلد3۔نماز سے متعلق مسائل-صفحہ95

فجر کے بعد طلوع آفتاب تک بیٹھنا اور دو رکعت پڑھنے کا اجر

حدیثِ مبارکہ:

پہلی حدیث:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"مَنْ صَلَّى الْغَدَاةَ فِي جَمَاعَةٍ ، ثُمَّ قَعَدَ يَذْكُرُ اللَّهَ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ ، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ ، كَانَتْ لَهُ كَأَجْرِ حَجَّةٍ وَعُمْرَةٍ”

"جس نے صبح کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھی، پھر بیٹھ کر سورج طلوع ہونے تک ذکر کرتا رہا، پھر اس نے دو رکعتیں پڑھیں، اس کے لیے حج اور عمرے جتنا اجر (ثواب) ہوگا۔”

(صحیح الترغیب:464)

دوسری حدیث:

"مَنْ صَلَّى الصُّبْحَ ، ثُمَّ جَلَسَ فِي مَجْلِسِهِ حَتَّى تُمْكِنَهُ الصَّلاةُ ، كَانَتْ بِمَنْزِلَةِ عَمْرَةٍ وَحَجَّةٍ مُتَقَبَّلَتَيْنِ”

"جس نے صبح کی نماز پڑھی، پھر اپنی مجلس میں بیٹھا رہا حتیٰ کہ نماز پر قابو ہوا (یعنی اس نے نماز پڑھی)، وہ قبول شدہ حج اور عمرے کے قائم مقام ہے۔”

(صحیح الترغیب:468)

سوال:

اگر کوئی شخص فجر کی نماز پڑھنے کے بعد اس جگہ بیٹھا نہ رہے جہاں اس نے نماز ادا کی، بلکہ جگہ تبدیل کرلے، تو کیا اُسے بھی یہ ثواب حاصل ہوگا؟ (محمد رمضان سلفی، عارف والا)

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام على رسول الله، أما بعد:

روایت کی صحت کا تجزیہ:

  • علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے "صحیح الترغیب” میں اس حدیث کو "رواہ ترمذی وقال: حدیث حسن غریب” قرار دیا ہے۔ (جلد 1، صفحہ 318)
  • سنن ترمذی (586) میں یہ روایت ابو ضلال (ہلال بن ابی ہلال القسملی) کے واسطے سے انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مختلف الفاظ کے ساتھ روایت ہوئی ہے۔

ابو ضلال کے متعلق محدثین کی آراء:

  • حافظ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:"وضعفه الجمهور”
    "جمہور نے اسے ضعیف کہا ہے”

    (مجمع الزوائد 10/384)

  • حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:"ضعیف”

    (تقریب التہذیب:7349)

جمہور محدثین کے نزدیک کسی راوی کو "مقارب الحدیث” کہنا اُسے ضعیف سے نکالنے کے لیے کافی نہیں۔ لہٰذا یہ روایت ثابت نہیں ہے، اور اس کے تمام شواہد بھی ضعیف اور مردود ہیں۔ ان ضعیف شواہد کو جوڑ کر "حسن لغیرہ” قرار دینا علمی اصولوں کے خلاف ہے۔

دوسرے شواہد کا تجزیہ:

روایت: "الترغیب والترہیب” اور "صحیح الترغیب” میں بحوالہ "الاوسط للطبرانی”

الاوسط للطبرانی (6/279-280، حدیث 5598)

اس کے راوی فضل بن موفق کے متعلق امام ابوحاتم الرازی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:

"كان شيخا صالحا، ضعيف الحديث، وكان قرابة لابن عيينة، وكان يروي أحاديث موضوعة”
"وہ نیک شخص تھا، لیکن حدیث میں ضعیف تھا۔ سفیان بن عیینہ کا رشتہ دار تھا اور موضوع احادیث بیان کرتا تھا۔”

(کتاب الجرح والتعدیل 7/68)

🔹 اس سے واضح ہوا کہ یہ روایت موضوع ہے، اگرچہ راوی نیک تھا لیکن ضعیف ہونے کے باعث اس کی بیان کردہ روایت مردود ہے۔ ایسے راوی کی روایت کو "حسن لغیرہ” کہنا بے بنیاد جرات ہے۔

فائدہ:

امام ابوحاتم الرازی رحمۃ اللہ علیہ کے قول سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی روایت کے "موضوع” ہونے کے لیے صرف راوی کا کذاب ہونا ضروری نہیں، بلکہ بعض اوقات ضعیف راوی کی روایت بھی قرائن کی بنا پر موضوع قرار دی جا سکتی ہے، بشرطیکہ محدثین کرام اس کی تصریح کریں۔

لہٰذا مذکورہ اجروثواب والی دونوں روایات ضعیف و مردود ہیں، اس لیے سوال ہی محلِ نظر ہے۔

تنبیہ:

شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے السلسلۃ الصحیحہ (3403) میں ان احادیث کے دو شواہد ذکر کیے ہیں:

1. المعجم الکبیر للطبرانی (8/209، حدیث 7741)

  • اس روایت میں راوی موسیٰ بن علی (الخشنی) نامعلوم ہے۔
  • بعض نے اسے موسیٰ بن علی بن رباح قرار دیا ہے، لیکن دلیل کے بغیر ایسی تطبیق مردود ہے۔
  • عثمان بن عبدالرحمان بن مسلم الحرانی الطرائفی کا طریقہ یہی تھا کہ وہ مجہول راویوں سے منکر روایتیں بیان کرتا تھا۔

حوالہ: الکامل لابن عدی (5/1820-1821، دوسرا نسخہ: 6/295-298)
الطرائفی پر سات محدثین نے جرح اور سات نے توثیق کی ہے۔
واللہ اعلم

🔸 نتیجہ: سند میں موجود موسیٰ بن علی کی وجہ سے روایت ضعیف ہے۔

2. المعجم الکبیر للطبرانی (8/174، حدیث 7649)

  • سند میں راوی احوص بن حکیم ہے۔
  • حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:"ضعیف الحفظ۔۔ وکان عابداً”

    (تقریب التہذیب:290)

  • حافظ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:"وضعفه الجمهور”

    (مجمع الزوائد 3/42)

انہی ضعیف روایات کی بنیاد پر شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس روایت کو "السلسلۃ الصحیحہ” (جلد 7، صفحہ 1195، حدیث 3403) میں ذکر کیا ہے۔

مستند مثال:

سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب فجر کی نماز پڑھتے، تو اپنی جائے نماز پر بیٹھے رہتے حتیٰ کہ سورج اچھی طرح طلوع ہوجاتا تھا۔

(صحیح مسلم: 670، دارالسلام: 1526، سنن ابی داود: 1294، سندہ صحیح)

📌 طلوع آفتاب کے بعد دو رکعتیں پڑھنے کا بہت بڑا اجر ہے، جیسا کہ صحیح مسلم (720، دارالسلام: 1671) میں موجود حدیث سے ثابت ہوتا ہے۔

والحمدللہ

(8 اپریل 2010ء)

خلاصہ:

  • بیان کردہ تمام احادیث جو فجر کے بعد ذکر اور دو رکعتوں کو حج و عمرہ کے برابر قرار دیتی ہیں، ضعیف اور ناقابلِ اعتماد ہیں۔
  • اس لیے ان روایات کی بنیاد پر کوئی مسئلہ اخذ کرنا درست نہیں۔
  • سوال کہ کیا جگہ تبدیل کرنے سے ثواب ملے گا؟ کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہتی کیونکہ اصل روایات ہی قابلِ قبول نہیں ہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1