فجر کی نماز سستی یا نیند کی وجہ سے مؤخر کرنا کیسا؟
ماخوذ : فتاویٰ ارکان اسلام

سوال

اگر کوئی شخص رات بھر جاگتا ہے اور فجر کی نماز وقت ختم ہونے کے بعد پڑھتا ہے، تو کیا اس کی نماز قبول ہوتی ہے؟ اور وہ دیگر نمازیں جو وہ وقت پر پڑھتا ہے، ان کا کیا حکم ہے؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جو شخص فجر کی نماز وقت ختم ہونے کے بعد پڑھتا ہے جبکہ اس کے لیے وقت پر پڑھنا ممکن ہے — کیونکہ اگر وہ چاہے تو رات کو جلدی سو سکتا ہے — تو اس کی یہ نماز قبول نہیں ہوگی۔ ایسا شخص نماز کو بغیر کسی شرعی عذر کے مؤخر کر رہا ہے، اور اس عمل کو رد کر دیا گیا ہے۔ جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَیْسَ عَلَیْہِ اَمْرُنَا فَہُوَ رَدٌّ”

(صحیح مسلم، الاقضیة، باب نقض الاحکام الباطلة، حدیث: 1718، 18)

ترجمہ:
"جس شخص نے کوئی ایسا عمل کیا جس کے بارے میں ہمارا امر نہ ہو، تو وہ مردود ہے۔”

بلا عذر نماز مؤخر کرنا:

جو شخص جان بوجھ کر اور بغیر کسی عذر کے نماز کو وقت کے بعد ادا کرتا ہے، وہ ایسا عمل کر رہا ہے جس کا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم نہیں دیا، اس لیے وہ عمل رد کر دیا جاتا ہے۔

اگر وہ یہ عذر پیش کرے کہ:

"میں نماز فجر کے وقت سویا ہوتا ہوں،”

تو اس کے جواب میں ہم کہیں گے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سونے والے کے بارے میں فرمایا ہے:

"مَنْ نَام عنَ صَلَاۃً اَو نسيھا فلیصلھا اذا ذکرھا، لا کفارۃ لہا الا ذلک”

(صحیح البخاري، المواقیت، باب من نسي صلاۃ فلیصل اذا ذکر، حدیث: 597)
(صحیح مسلم، المساجد، باب قضاء الصلاۃ الفائتۃ، حدیث: 684 (315) واللفظ لہ)

ترجمہ:
"جو شخص کسی نماز کے وقت سو جائے یا اسے بھول جائے، تو جب یاد آئے، اس وقت اس کو ادا کر لے، اس کے علاوہ اس کا کوئی کفارہ نہیں۔”

نیند کا عذر اور اس کا علاج:

ایسے شخص کے لیے ممکن تھا کہ:

✿ رات کو جلد سو جاتا تاکہ وقت پر بیدار ہو سکے۔
✿ الارم گھڑی استعمال کرتا۔
✿ کسی دوسرے شخص سے کہتا کہ وہ اسے وقت پر جگا دے۔

لہٰذا اگر اس نے ان تدابیر کو اختیار نہ کیا اور نماز کو وقت پر ادا نہ کیا، تو یہ نماز عملاً مؤخر کرنے کے مترادف ہوگی، اور اس بنیاد پر یہ نماز قبول نہیں کی جائے گی۔

دیگر نمازوں کا حکم:

باقی تمام نمازیں، جنہیں وہ وقت پر ادا کرتا ہے, وہ ان شاء اللہ قبول ہوں گی۔

ایک اہم نصیحت:

اس موقع پر یہ بات بھی بیان کرنا مناسب ہے کہ:

ایک مسلمان پر واجب ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرے جس سے اللہ تعالیٰ راضی ہو۔

کیونکہ دنیا میں انسان کی پیدائش کا مقصد اللہ کی عبادت ہے۔ انسان کو یہ علم نہیں کہ اسے کب موت آ جائے اور وہ آخرت کے سفر پر روانہ ہو جائے، جہاں عمل کا موقع نہیں ہوگا۔

جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"اِذَا مَاتَ الْاِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْہُ عَمَلُہُ اِلاَّ مِنْ ثَلَاثَةٍ:ْ صَدَقَةِ جَارِیَةٍ، اَوْ عِلْمٍ یُنْتَفَعُ بِہِ، اَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ یَدْعُو لَہُ”

(صحیح مسلم، الوصیة، باب ما یلحق الانسان من الثواب بعد وفاته، حدیث: 1631 (14))

ترجمہ:
"جب انسان فوت ہو جاتا ہے تو تین چیزوں کے سوا اس کے تمام اعمال منقطع ہو جاتے ہیں:
✿ صدقہ جاریہ
✿ علم، جس سے فائدہ حاصل کیا جائے
✿ نیک اولاد، جو اس کے لیے دعا کرے”

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1