سوال
فجر سے پہلے اذان دینا جائز ہے یا نہیں؟ کیا غیر رمضان میں سحری کے وقت اذان ہو سکتی ہے؟ اور اگر غیر رمضان میں سحری کے وقت اذان ناجائز ہے، تو اس حدیث کا مطلب کیا ہوگا جس میں ذکر ہے کہ بلال رضی اللہ عنہ رات میں اذان دیتے تھے تاکہ قیام کرنے والے لوٹ جائیں اور سونے والے جاگ جائیں؟
جواب
فجر سے پہلے اذان کا مسئلہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں حضرت بلال رضی اللہ عنہ رات میں اذان دیتے تھے تاکہ تہجد پڑھنے والے نماز فجر کی تیاری کر سکیں اور سوئے ہوئے لوگ بھی جاگ جائیں۔ یہ اذان، جو فجر سے پہلے دی جاتی تھی، وقتِ نماز کا اعلان کرنے والی اذان نہیں تھی بلکہ ایک اطلاع دینے والی اذان تھی تاکہ لوگ نماز فجر کے لیے تیار ہو جائیں۔
حدیث شریف میں ارشاد ہے: "حضرت بلال رات کو اذان دیتے ہیں، پس کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ ابن ام مکتوم اذان دیں”(بخاری و مسلم)۔ یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ بلال رضی اللہ عنہ کی اذان رات میں ہوتی تھی اور اس کا مقصد لوگوں کو جاگنے اور تیاری کرنے کے لیے مطلع کرنا تھا، نہ کہ نماز فجر کے وقت کا اعلان۔
اس اذان کی حکمت:
➊ تہجد پڑھنے والوں کو یاد دہانی: رات کی اذان کا ایک مقصد تہجد پڑھنے والوں کو اطلاع دینا تھا کہ اب نماز فجر کا وقت قریب ہے، اور انہیں آرام کر کے فجر کے لیے تیار ہو جانا چاہیے۔
➋ سونے والوں کو جگانا: دوسرا مقصد سوئے ہوئے لوگوں کو جگانا تھا تاکہ وہ بھی وقت پر نماز فجر کے لیے تیاری کر سکیں۔
غیر رمضان میں سحری کی اذان:
یہ اذان رمضان کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ تمام سال کے لیے جائز ہے، کیونکہ اس کا مقصد لوگوں کو نماز فجر کے لیے تیار کرنا ہے، نہ کہ صرف رمضان میں سحری کے لیے۔ اگرچہ رمضان میں اس اذان کی اہمیت بڑھ جاتی ہے تاکہ لوگ سحری کے وقت کو جان سکیں اور وقت پر کھانے پینے سے فارغ ہو جائیں۔
امام ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے "فتح الباری” میں لکھا ہے کہ یہ اذان رمضان کے ساتھ خاص نہیں بلکہ عام حالات میں بھی دی جا سکتی ہے۔ اس لیے سحری یا تہجد کے لیے دی جانے والی اذان غیر رمضان میں بھی جائز ہے۔
نتیجہ:
➊ فجر سے پہلے اذان دینا جائز ہے، خواہ رمضان ہو یا غیر رمضان، کیونکہ اس کا مقصد لوگوں کو جاگنے اور نماز فجر کی تیاری کرنے کا موقع فراہم کرنا ہے۔
➋ یہ اذان فجر کے وقت کا اعلان نہیں کرتی بلکہ لوگوں کو نماز کی تیاری کے لیے مطلع کرتی ہے۔
➌ اس اذان کا غیر رمضان میں بھی وہی حکم ہے جو رمضان میں ہے، اور اس کا مقصد تہجد پڑھنے والوں کو مطلع کرنا اور سوئے ہوئے لوگوں کو جگانا ہے۔
(حوالہ: سبل السلام، فتح الباری، نیل الاوطار، تنظیم اہل حدیث جلد نمبر ۱۸ شمارہ ۲۸)