انگریزوں نے بر صغیر پر غاصبانہ قبضے کے بعد مسلمانوں کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے اور ان کے در میان مذ ہبی منافرت پیدا کرنے اور انہیں دعوت و جہاد کے پاکیزہ مشن سے دور رکھنے کے لئے ’’مرزا غلام احمد قادیانی‘‘ کے روپ میں جھوٹی نبوت کا دعویدار کھڑا کیا۔ انیسویں صدی کے آخری عشروں میں غلام احمد قادیانی نے یکے بعد دیگرے مجدد، مامور من الله، مثل مسیح، مسیح موعود اور بالآخر نبی در سول ہونے کا دعوی کر کے اپنے آقا انگریزوں کے اغراض و مقاصد کی تکمیل کی۔ انگریز کے اس خود کاشتہ پودے نے جب ماحول کو اپنے زہریلے اثرات سے آلودہ کرنا چاہا تو علمائے اہلحدیث نے فوراً اس کی خبر لی اور اس کے دعوؤں کی تمام تر حقیقت کو طشت از بام کیا۔ معروف مصنف، مترجم اور کئی تحقیقی و عملی کتابوں کے مؤلف مولانا خالد سیف صاحب، متکلم اسلام مولانا حنیف ندویؒ کی کتاب مرزایت نئے زاویوں سے“ طبع طارق اکیڈمی فیصل آباد (۲۰۰) کے حرف آغاز ص ۱۰ پر لکھتے ہیں۔۔۔۔۔
مولانا محمد حسین بٹالوی ؒ اگرچہ ان علمائے کرام میں سے تھے جو اس دور میں مرزا قادیانی کے بارے میں حسن ظن رکھتے تھے ، لیکن جوں ہی مرزا قادیانی نے کھل کر اپنی اصلیت کا اظہار کیا، تو سب سے پہلے مولانا بٹالوی ؒ نے ہی مرزا قادیانی کو کافر قرار دیا۔ اور یہ اعزاز بھی مولانا بٹالویؒ کو ہی حاصل ہے کہ اسلام اور قادیانیت کے مابین جو سب سے پہلا مناظرہ لاہور میں ہو اتھا، اس میں مسلمانوں کی طرف سے مناظر مولانا بٹالوی تھے اور قادیانیوں کی طرف سے حکیم نور الدین۔ مولانا بٹالوی نے اس مناظرہ میں حکیم نور الدین کو ناکوں چنے چبوائے اور دلائل و براہین کی طاقت سے اس طرح لاجواب کر دیا کہ حکیم نورالدین مناظرہ درمیان میں ہی چھوڑ کر لدھیانہ فرار ہو گیا، جہاں ان دنوں مرزا غلام احمد قیام پذیر تھا۔ بہر حال مولانا بٹالوی نے ۱۵ اپریل ۱۸۹۱ء کو لدھیانہ میں مرزا قادیانی کو تارارسال کیا، جس میں تحریر تھا کہ آپ کا مرید خاص مناظرہ سے راہ فرار اختیار کر کے آپ کے پاس پہنچ چکا ہے، اسے مناظرے پر آمادہ کریں یا پھر خود مناظرہ کے لئے تیار ہو جائیں“۔
مؤرخ اہلحدیث ذہبی دوراں محترم مولانا محمد اسحاق بھٹی صاحب لکھتے ہیں۔۔۔۔
”مرزا قادیانی پر کفر کا سب سے پہلا فتویٰ مشہور اہلحدیث عالم مولانامحمد حسین بٹالویؒ نے تیار کیا تھا اور اسے اپنے استاد عالی مرتبت میاں سید نذیر حسین محدث دہلوی ؒ کی خدمت میں پیش کر کے اس پر ان کے دستخط کرائے تھے ، مرزا قادیانی اور ان کے ساتھی اس سے نہایت پریشان ہوئے تھے۔ اس لئے مولا نا بٹالوی نے ہندوستان کے دور دراز مقامات میں رہنے والے دو سو معروف و ممتاز علمائے عظام سے خود مل کر یا اپنے نمائندے بھیج کر اس فتوے پر ان کے تائیدی دستخط کرائے تھے اور اس پر انہوں نے اپنی مہریں ثبت فرمائی تھیں۔ مرزا قادیانی اور ان کے ساتھی اس فتوائے تکفیر سے نہایت پریشان ہوئے، چنانچہ مرزا قادیانی لکھتا ہے:
علمائے پنجاب اور ہندوستان کی طرف سے فتنہ تکفیر و تکذیب حد سے گزر گیا ہے اور نہ صرف علماء بلکہ فقراء اور سجادہ نشین بھی اس عاجز کو کافر اور کاذب ٹھراے میں مولویوں کی ہاں میں ہاں ملارہے ہیں، ان لوگوں کے اغواء سے ہزاروں لوگ ایسے پائے جاتے ہیں کہ وہ ہمیں نصاری اور ہنود سے بھی آکفر سمجھتے ہیں۔ اگر چہ تکفیر کا بوجھ نذیر حسین دہلوی کی گردن پر ہے مگر تاہم دوسرے مولویوں کا یہ گناہ ہے کہ انہوں نے اس نازک امر تکفیر میں اپنی عقل اور اپنی تفتیش سے کام نہیں لیا بلکہ نذیر حسین کے دجالانہ فتوے کو دیکھ کر جو محمد حسین بٹالوی نے تیار کیا تھا، بغیر تحقیق کے ایمان لے آئے“۔ (انجام آتھم از مرزا نظام احمد قادیانی صفحه ۴۵ مطبوعه ۱۸۹۷ء)
مولانا بھٹی صاحب لکھتے ہیں۔۔۔۔۔۔
” فتوائے تکفیر کے بارے میں مرزا قادیانی کی یہ عبارت بالکل واضح ہے اور انہوں نے صاف لفظوں میں تحریر کیا ہے کہ ان کو کافر قرار دینے کا فتویٰ سب سے پہلے مولانا محمد حسین بٹالوی نے لکھا اور سب سے پہلے اس فتویٰ پر میاں سید نذیر حسین نے دستخط کئے اور ان کے دستخط دیکھ کر پنجاب اور ہندوستان کے دوسرے علماء اور سجادہ نشینوں نے بلکہ بقول مرزا قادیانی کے وہ علماء و وسجاده نشین اس فتوے کو دیکھ کر اس پر ایمان لے آئے ہیں“۔ اس فتوے کے سلسلے میں دوسری جگہ مرزا قادیانی لکھتا ہے:
مولوی محمد حسین نے یہ فتویٰ لکھا اور میاں نذیر حسین دہلوی سے کہا کہ سب سے پہلے اس پر مہر لگا دے اور میرے کفر کی بابت فتوی دے دے اور تمام مسلمانوں میں کافر ہو نا شائع کر دے۔ سو اس فتوے اور میاں صاحب مذکور کی مہر سے بارہ برس پہلے یہ کتاب (براہین احمدیہ) تمام پنجاب اور ہندوستان میں شائع ہو چکی تھی اور مولوی محمد حسین جو بارہ برس بعد اول المکفرین بنے، بانی تخفیر کے وہی تھے اور اس آگ کو اپنی شہرت کی وجہ سے تمام ملک میں سلگانے والے میاں نذیر حسین دہلوی تھے“۔(تحفہ گولڑویہ از مرزا قایانی ص ۱۲۱ مطبوعہ قادیان ۱۹۱۴ء) (ماخوذ: مرزایت نئے زاویوں سے از مولانا حنیف ندوی طبع ۲۰۰۱ – طارق اکیڈمی فیصل آباد ، حرفے چند مولانا اسحاق بھٹی ص ۲۰-۲۱)
مرزا قادیانی کے ان الفاظ سے واضح ہوتا ہے کہ ان کی تکفیر کے بانی مولانا محمد حسین بٹالوی تھے اور میاں نذیر حسین محدث دہلوی اس تکفیر کی آگ کو اپنی شہرت کی وجہ سے تمام ملک میں سلگانے والے تھے“۔
مولانا بٹالویؒ نے جو فتویٰ تکفیر مرتب کیا تھا وہ انہوں نے اپنے ماہنامہ رسالے "اشاعة السنہ‘‘ کی ایک ضخیم اشاعت خاص میں شائع کر دیا تھا۔ نومبر ۱۹۸۶ء میں اس فتویٰ تکفیر کا نقش ثانی دار الدعوة السلفیہ شیش محل روڈ لاہور کی طرف سے شائع کیا گیا۔ مولانا بٹالویؒ کی یہ بہت بڑی خدمت ہے جو انہوں نے مرزا غلام احمد کے خلاف فتویٰ تکفیر مرتب کر کے انجام دی۔ پھر جس اہل حدیث عالم دین نے مرزا قادیانی کا ناطقہ بند کئے رکھا اور آخر دم تک تحریک ختم نبوت کے لئے سر گرم عمل رہے انہیں دنیا فاتح قادیاں مولانا ثناء اللہ امرتسری ؒ کے نام سے جانتی ہے۔ قادیانیت کے خلاف ان کی مکمل خدمات کو مولانا صفی الرحمن مبارکپوری ؒ نے’’ فتنہ قادیانیت اور مولانا ثناء اللہ امرتسری‘‘ میں بڑی وضاحت اور تفصیل سے بیان کیا ہے، یہ کتاب راقم کی تقدیم کے ساتھ اگست ۲۰۰۷ء میں مکتبہ محمدیہ قذافی سٹریٹ الفضل مارکیٹ اردو بازار لاہور کی طرف سے شائع ہوئی ہے۔
پاکستان میں قادیانوں کو غیر مسلم قرار دئے جانے کی بات سب سے پہلے اہل حدیث عالم دین مولانا محمد حنیف ندویؒ (وفات ۱۳ جولائی ۱۹۸۷) نے کی تھی اور اس سلسلے میں انہوں نے ۱۹۵۰ء کے گردد و بیش مرزائیت سے متعلق نہایت اچھوتے انداز میں مضامین ہفت روزہ ” الاعتصام “ میں لکھے اور مرزائیت کا رد کیا۔ ان کے یہ مضامین بعد میں ” مرزائیت نئے زاویوں سے“ کے نام کتابی صورت میں شائع ہوئے تھے۔ بلاشبہ علمائے اہلحدیث نے قادیانی تحریک کے خلاف بحث و مباحثے، مناظروں، مجادلوں اور تقریر و تحریر سے گراں قدر خدمات سر انجام دی ہے۔ تاریخ کا یہ ایک روشن باب ہے اسے فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ افسوس کہ بعض الناس ان حقائق سے باخبر ہونے کے باوجود ” سہرا اپنے بزرگوں کے امر باندھنے کی کوشش کرتے ہیں اور علمائے اہل حدیث کی رد قادیانیت کے سلسلے کی خدمات سے پہلو تہی اختیار کرتے ہیں۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں تحریک ختم نبوت یارد قادیانیت کے سلسلے میں اہل حدیث کی اولیات کا تذکرہ کر دیا جائے۔ مولانا محمد اسحاق بھٹی صاحب نے ’’مرزایت نئے زاویوں سے‘‘ کے مقدمہ میں ، ڈاکٹر بہاء الدین کی تحریک ختم نبوت کی جلد اول کے حرفے چند میں اور اپنی تصنیف ’’تذکرہ قاضی محمد سلیمان منصور پوری‘‘ میں اہل حدیث کی اولیات کا ذکر کیا ہے، ملاحظہ فرمائیے:
۱- مرزا غلام احمد پر تکفیر کا فتویٰ سب سے پہلے مولا نا محمد حسین بٹالوی ؒ نے تیار کیا اور اس پر اپنے استاد عالی قدرمیاں سید نذیر حسین دہلوی مہینے کے دستخط کرائے اور پھر پنجاب و ہندوستان کے تقر بیا دو سو مشاہیر علماء کرام کی خدمت میں اس فتوے کا مضمون پیش کیا اور ان سے اس طرح اس کی تصویب و تصدیق کرائی کہ انہوں نے اس پر دستخط ثبت فرمائے یا اپنی مہریں لگائیں۔
۲- مرزا قادیانی سے مقابلے کے لئے سب سے پہلے عالم جو قادیان گئے ، وہ مولانا ثناء اللہ امر تسری ؒ تھے۔ یہ جنوری ۱۹۰۳ء کا واقعہ ہے، انہوں نے مرزا قادیانی کے گھر جا کر انہیں للکارا، لیکن مرزا قادیانی مقابلے کے لئے نہیں نکلا۔
۳-مرزائیوں سے مباحثوں اور مناظروں کا سلسلہ سب سے پہلے مولانا محمد حسین بٹالویؒ اور مولانا ثناء اللہ امرتسری ؒ نے شروع کیا۔
۴-۔ جس تعداد میں مولانا ثنااللہ امر تسریؒ صاحب نے مرزائیوں سے مناظرے کئے اس تعداد میں کسی نے نہیں کئے۔
۵ مرزا قادیانی کو مباہلے کا چیلنج، سب سے پہلے اہل حدیث علمائے کرام نے دیا۔
۶- مسلمانان برصغیر کی طرف سے ’’فاتح قادیان‘‘ کا لقب مولانا ثناء اللہ امرت سریؒ کوہی دیا گیا۔
۷- مرزائیت کے خلاف سب سے زیادہ کتا ہیں اہل حدیث مصنفین نے لکھیں۔
۸- قیام پاکستان کے بعد ملک کے دستور میں زائیوں کو اقلیت قرار دینے کا مطالبہ تحریری صورت میں سب سے پہلے اہلحدیث عالم مولانا محمد حنیف ندوی ؒ نے کیا، بلکہ مرزائیوں کو توجہ دلائی کہ وہ خود حکومت سے مطالبہ کریں کہ انہیں ملک کے دستور میں اقلیت کا مقام دیا جائے تاکہ ان کی مخالفت میں روز بروز کا سلسلہ ختم ہو جائے-
۹- مرزائیت کے خلاف جتنی تحریکیں چلیں ، ان میں سب سے زیادہ اہل حدیث علماء اور عوام نے حصہ لیا اور اس کے نتیجے میں حکومت نے انہیں گرفتار کیا۔
۱۰۔ مرزا غلام احمد کی تکذیب میں سب سے پہلے ۲۴ صفحات کا رسالہ مولانا اسماعیل علی گڑھی نے ۱۸۹۲ء میں لکھا۔
۱۱۔ مرزا قادیان کی تردید و تکفیر میں اولین تفصیلی کتاب ۱۸۹۲ ء میں قاضی سلیمان منصور پوری نے ” غایت المرام‘‘ کے نام سے لکھی۔ اس وقت قاضی صاحب کی عمر ۲۵ سال تھی اس لحاظ سے وہ سب سے کم عمر مصنف تھے جنہوں نے شروع میں مرزا کے خلاف لکھا۔
۱۲۔ قادیانی کی تکفیر و تکذیب کے متعلق اولین الہامی فتویٰ مولانا محی الدین عبدالرحمن لکھوی نے لگایا۔
۱۳-اہلحدیث عالم مولانا ثناء اللہ امرتسری نے مرزا قادیانی کا اس پامردی اور تسلسل کے ساتھ مقابل کیا کہ وہ شدید گھبراہٹ میں مبتلا ہو گیا اور پکار اٹھا کہ’’ جھوٹا سچے کی زندگی میں مر جائے“۔ چناچہ ۱۵ اپریل ۱۹۰۷ ء کو اس نے ’’مولوی ثناء اللہ کے ساتھ آخری فیصلہ“ کے عنوان سے اشتہار شائع کیا اور اس سے گیارہ مہینے بعد وہ ۲۴ مئی ۱۹۰۸ء کو احمد بلڈ نگ لاہور مین ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ کے مکان پر ہیضے کی بیماری سے مر گیا۔ یہ اس کی واحد دعا یا بدعا تھی جو قبول ہوئی۔ شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ صاحب نے اس سے چالیس برس بعد ۱۵ مارچ ۱۹۳۸ء کو سرگودھا میں وفات پائی۔
۱۴۔ مرزایت کے خلاف اہلحدیث کی اولیات میں یہ بھی ہے کہ مرزا قادیانی کے دعویٰ نبوت کرنے سے پہلے ان کے عقائد وافکار سے مطلع ہو کر مولوی عبدالحق غزنوی سے ان مباہلہ ہوا تھا، جس کا نتیجہ مرزا قادیانی کے خلاف نکلا۔
ان تاریخی حقائق و واقعات سے واضح ہوتا ہے کہ علمائے اہل حدیث ہی تھے جنہوں نے مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کے مبلغوں کو ہر محاذ پر شکست فاش دی اور انہیں آڑے ہاتھوں لیا۔
فتنہ قادیانیت کے خلاف علمائے اہل حدیث کی مساعی جاننے کے لئے محترم ڈاکٹر بہاء الدین صاحب لندنی کی کتاب ” تحریک ختم نبوت“ کا مطالعہ بڑا مفید ہے۔ اس کتاب کی چھ ضخیم جلدیں ہندوستان میں مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے تحت مکتبہ ترجمان دہلی کی طرف سے شائع ہوئی ہیں اور پاکستان میں یہ کتاب مکتبہ قدوسیہ رحمان مارکیٹ عزنی سٹریٹ اردو بازار لاہور کی طرف سے شائع کی گئی ہے۔ یہ کتاب آٹھ جلدوں میں مکمل ہو گی۔ اس علمی و تحقیقی کتاب میں محترم ڈاکٹر بہاء الدین صاحب نے فتنہ قادیانیت کی تردید اور اس کی بیخ کنی کے آغاز کی تاریخ مرزا قادیانی کی راہ میں حائل شخصیات کا تذ کرہ ، سب سے پہلے مرزا قادیانی کی خلاف متفقہ فتویٰ تکفیر کی داستان اور تحریک ختم نبوت کے حقیقی اولین بانی اور قائدین کے حالات و خدمات کو نہایت تحقیق اور ریسرچ کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ محترم ڈاکٹر صاحب نے فتنہ قادیانیت کے بانی مرزا غلام احمد قادیانی کی اپنی تحریریں اور مکتوبات بھی دلیل کے طور پیش کئے ہیں، اس لحاظ سے یہ کتاب تحریک تحفظ ختم نبوت پر ایک مستند ، مدلل اور تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کتاب کے مطالعہ سے جہاں فتنہ مرزائیت کے خلاف علمائے اہل حدیث کے کارناموں سے آگاہی ملتی ہے وہیں ” بعض الناس“ کی طرف سے منع کردہ تاریخی حقائق کی قلعی بھی کھل کر سامنے آجاتی ہے۔ ہم ان حضرات کی خدمت میں گزارش کریں گے کہ وہ دل چھوٹا نہ کریں اور جو حقیقت ہے اسے تسلیم کرتے ہوئے تاریخ کا حلیہ بگاڑنے سے گریز کریں۔