ہمیں سلیمان بن احمد نے محمد بن احمد بن براء، عبد المنعم بن ادریس بن سنان عن ابیہ، وہب بن منبہ، حضرت جابر بن عبد اللہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کی سند سے بیان کیا کہ جب سورت اذا جاء نصر الله والفتح نازل ہوئی تو نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اے جبریل ! میری وفات کی آواز لگ گئی۔ جبریل نے فرمایا : آخرت آپ کے لئے دنیا سے بہتر ہے اور عنقریب آپ کا رب عطا کرے گا تو آپ راضی ہو جائیں گے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال کو حکم فرمایا کہ نماز کے لئے اذان دیں چنانچہ مھاجرین و انصار مسجد میں جمع ہو گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی اور پھر منبر پر بیٹھ کر خطبہ دیا جس سے لوگوں کے دل بیٹھ گئے اور آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
میں تم میں کیسا نبی تھا ؟ لوگوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے اچھے نبی تھے، آپ ہمارے لئے مہربان باپ او شفیق بھائی کی طرح تھے آپ نے الله تعالیٰ کے پیغامات پہنچا دیئے اور ہم تک وحی پہنچا دی اور اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور موعظہ حسنہ کے ساتھ دعوت دی۔ اللہ تعالیٰ آپ کو ہماری طرف سے اچھی جزاء عطا فرمائے جو وہ اپنے نبی کو اس کی امت کی طرف سے کرتا ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمانوں کی جماعت میں تمہیں اللہ کے واسطے سے اور اس حق کے واسطے سے جو میرا تم پر ہے کہتا ہوں کہ میری طرف سے کسی سے کوئی زیادتی ہو گئی ہو تو قیامت میں بدلہ لینے سے پہلے یہیں لے لے، لیکن کوئی شخص کھڑا نہ ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری مرتبہ فرمایا کوئی کھڑا نہ ہوا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری مرتبہ فرمایا تو مسلمانوں میں سے ایک بوڑھا شخص کھڑا ہوا جنہیں عکاشہ کہا جاتا تھا وہ لوگوں کی گردنوں کو پھلانگتا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سا منے آ کھڑا ہوا اور کہنے لگا۔ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں اگر آپ ہمیں اللہ کا واسطہ نہ دیتے تو میں آگے سے کچھ نہ کہتا لیکن ہم آپ کے ساتھ ایک غزوہ سے واپس ہو رہے تھے واپسی میں میری اونٹنی آپ کی اوٹنی کے برابر آگئی میں اترا کہ آپ کی ران کا بوسہ لے لوں مگر آپ نے اچانک لکڑی اٹھائی اور وہ میرے پہلو میں چبھ گئی مجھے نہیں معلوم کہ وہ جان بوجھ کر تھا یا نادانستہ ہو گیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں اللہ کے جلال کی پناہ لیتا ہوں، کیا اللہ کا رسول جان بوجھ کر تجھے مارے گا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال کو حکم دیا، جاؤ فاطمہ سے وہ لکڑی لے آو حضرت بلال گئے اور دروازہ کھٹکھٹا کر بولے، اے اللہ کے رسول کی بیٹی! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ لکڑی دے دو فاطمہ بولیں کہ اس لکڑی کی ضرورت کیا ہے نہ تو حج ہے اور نہ جہاد کا وقت؟ تو بلال رضی اللہ عنہ نے فرمایا : کیا آپ کو علم نہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا اور ہمیں چھوڑ کر جا رہے ہیں اب وہ قصاص دینا چاہتے ہیں۔ حضرت فاطمہ نے فرمایا : کیا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی کوئی انتقام لے گا، یہ حسن حسین ہیں انہیں لے جاؤ اور اس سے کہو ان سے انتقام لے لے، یہ دونوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے انتقام لینے نہیں دیں گے۔ بہرحال وہ واپس آئے اور وہ لکڑی آنخضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک میں دے دی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ لکڑی عکاشہ کو دے دی کہ انتقام لے لو۔
جب حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھا تو وہ دونوں کھڑے ہو گئے اور کہا : اے عکاشہ ہم تیرے سامنے ہیں ہم سے بدلہ لے لے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ لے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارا مرتبہ اور مقام پہچان لیا ہے تم دونوں جاؤ پھر حضرت علی کھڑے ہوئے اور فرمایا ہم زندہ ہیں نبی کے سامنے ہیں اور میرا دل نہیں مانتا کہ تو رسول اللہ سے بدلہ لے یہ میری پیٹھ اور پیٹ حاضر ہے مجھ سے اپنے ہاتھ سے بدلہ لے لے اور سو مرتبہ مار لے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو فرمایا : اے علی اللہ نے تیری نیت اور تیر مرتبہ دیکھ لیا ہے بیٹھ جاؤ، پھر حضرت حسن اور حسین کھڑے ہو گئے اور کہا : اے عکاشہ کیا تمہیں نہیں معلوم ہم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے ہیں ہم سے بدلہ لینا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بدلہ لینے کے برابر ہے، ہم سے بدلہ لے لو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میرے آنکھوں کی ٹھنڈک بیٹھ جاؤ، اللہ تمہارا یہ کردار نہیں بھولے گا۔ پھر فرمایا: اے عکاشہ ! اگر مارنا ہے تو مار لے۔ اس نے کہا : یا رسول اللہ ! جس وقت مجھے لکڑی لگی تھی میرا پیٹ کھلا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا پیٹ کھول دیا مسلمان زور زور سے رونے لگے کہ کیا ہم عکاشہ کو نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیٹ پر مارتے دیکھیں گے؟ جب عکاشہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیٹ کی رنگت سفیدی دیکھ لی تو گویا وہ موقع کی تلاش میں تھے بس نہیں چلا کہ وہ چھلانگ مار کر جھپٹ لیتے انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیٹ پر بوسہ لیا اور کہتے جاتے کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان کس کی مجال ہے جو آپ سے بدلہ لے نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا : تو مار لو یا معاف کر دو انہوں نے کہا : میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قیامت میں اپنی معافی کی امید پر معاف کر دیا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص چاہتا ہے کہ وہ جنت میں میرے ساتھی کو دیکھے تو وہ اس بوڑھے کو دیکھ لے چنانچہ مسلمان کھڑے ہو کر عکاشہ کی آنکھوں کے درمیان بوسہ لینے لگے اور مبارک ہو مبارک ہو کہتے جاتے کہ تم نے بڑ ا بلند درجہ پا لیا ہے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ پا لیا ہے۔ اسی دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم شدید بیمار ہو گئے اور اٹھارہ دن بیمار رہے لوگ عیادت کو آتے رہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پیر کے دن پیدا ہوئے، پیر کو ہی نبوت کی اور پیر ہی کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی جب ہفتہ کا دن ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری بڑھ گئی، حضرت بلال رضی اللہ رضی اللہ عنہ اذان دینے کے بعد دروازے پر آ کر بولے : اے اللہ کے رسول ! آپ پر سلامتی ہو نماز کا وقت ہو گیا، اللہ آپ پر رحم فرمائے۔ حضرت فاطمہ نے فرمایا : اے بلال رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے آپ میں مشغول ہیں۔ بلال چلے گئے جب صبح کی روشنی ہوئی تو کہنے گئے نماز کے لئے اقامت بغیر اجازت اپنے آقا کی نہیں پڑھوں گا دوبارہ آئے اور کہا۔ اے اللہ کے رسول ! آپ پر سلامتی ہو نماز کا وقت ہو گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے بلال آ جاؤ، اللہ کا رسول اپنے آپ میں مشغول ہے ابوبکر کو کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں بلال اپنے سر پر ہاتھ رکھے باہر آئے اور کہتے جاتے اے اللہ مدد کر، میری امید ٹوٹ گئی، میری کمر ٹوٹ گئی، میری کمرٹوٹ گئی کاش میری ماں نے مجھے جنا ہی نہ ہوتا کاش میں آج آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ ملا ہوتا۔
پھر انہوں نے حضرت ابوبکر کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم سنایا کہ آپ نماز پڑھائیں حضرت ابو بکر آگے بڑھے رقیق القلب انسان تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ خالی دیکھ کر برداشت نہ کر سکے اور بے ہوش ہو کر گر پڑے۔ مسلمان چیخ کر رونے لگے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آوازیں سنیں تو پوچھوایا کہ یہ شور کیسا ہے؟ جواب ملا یہ آپ کی جدائی پر لوگوں کے رونے کی آوازیں ہیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی اور حضرت عباس رضی اللہ عنہما کو بلوایا اور ان کے سہارے سے مسجد میں تشریف لائے اور لوگوں کو مختصر سی دو رکعتیں پڑھائیں پھر اپنا چہرہ ان کی طرف کر کے ارشاد فرمایا کہ
مسلمانو! میں تمہیں اللہ کے حوالے کرتا ہوں تم اللہ تعالیٰ کی امید اور اس کی امان میں ہو اور اللہ تمہارا نگہبان ہے۔ اے مسلمانو ! اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا اور میرے بعد اس کی فرمانبرداری کرنا میں اس دنیا کو چھوڑ رہا ہوں میرا آخرت کا پہلا دن اور دنیا کا آخری دن ہوگا۔ چنانچہ پیر کے دن مرض شدت اختیار کر گیا۔ اللہ تعالیٰ نے ملک الموت کو حکم دیا، اچھی صورت اور اچھے حلیہ میں جا کر میرے حبیب اور دوست محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی روح قبض کر لو۔ ملک الموت آئے اور ایک اعرابی کے روپ میں بیت نبوت کے دروازے پر کھڑے ہو گئے اور آواز دی السلام علیکم اے اھل بیت نبوت، بیت رسالت اور فرشتوں کی آماجگاہ۔ تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سےکہا کہ اسے جواب دو، انہوں نے اسے کہا کہ اے آنے والے آپ کے آنے پر اللہ جزائے خیر دے۔ اللہ کے رسول ! اپنے آپ میں مشغول ہیں اس نے دوسری اور تیسری مرتبہ آواز دی اور یہی جواب اسے ملا تیسری مرتبہ اس نے اس طرح اجازت مانگی کہ میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے اور جسم میں سنسناہٹ دوڑ گئی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : معلوم ہے یہ کون ہے؟ یہ لذات کو گرا دینے والا جماعتوں کو جدا کر دینے والا بیویوں کو بیوہ کرنے والا اولاد کو یتیم کرنے والا، گھروں کو تباہ اور قبروں کی تعمیر کرانے والا ملک الموت ہے۔
اے ملک الموت ! اللہ تجھ پر رحم کرے اندر آ جا، ملك الموت اندر آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا : ملنے آئے ہو یا روح قبض کرنے اس نے کہا کہ میں ملنے اور روح قبض کرنے آیا ہوں مجھے الله تعالیٰ نے حکم دیا تھا کہ میں آپ کی اجازت سے گھر میں داخل ہوں اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اجازت دیں تو ٹھیک ورنہ میں رب تعالی کے پاس واپس چلا جاؤں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : اے ملک الموت ! میرے دوست جبریل کو کہاں چھوڑ آئے ہو؟ اس نے کہا کہ وہ آسمان دنیا پر ہیں اور فرشتے آپ کے بارے میں ان سے تعزیت کر رہے ہیں۔ اتنے میں فوراً ہی جبریل آئے اور آپ کے سرہانے بیٹھ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے جبریل ! یہ دنیا سے رخصتی کا وقت ہے، بتاؤ میرے لئے اللہ کے ہاں کیا ہے؟ انہوں نے کہا : اے اللہ کے حبیب آپ کو خوشخبری دیتا ہوں کہ میں نے دیکھا کہ آسمانوں کے دروازے کھول دیئے گئے، فرشتے احترام اور خوشبو کے ساتھ صفیں بنائے کھڑے ہیں اور جنت کی حور آپ کے استقبال کے لئے زینت کئے ہوئے ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میرے رب کے واسطے ہی ساری حمد ہے۔ جبریل مجھے بشارت دو انہوں نے کہا کہ آپ پہلے شفاعت کنندہ ہیں اور پہلے وہ جس کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میرے رب کے واسطے ہی ساری حمد ہے جبریل مجھے بشارت دو۔ جبریل علیہ السلام نے پوچھا میرے حبیب آپ کس بارے میں پوچھ رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تم سے اپنی فکر اور پریشانی کے بارے میں پوچھ رہا ہوں کہ میرے بعد قرآن کون پڑھے گا ؟ اور میرے بعد رمضان کے روزوں کا والی کون ہو گا؟ بیت اللہ کے حاجیوں کی دیکھ بھال کرنے والا کون ہوگا؟ اس منتخب شدہ امت کا رہبر ونگہبان کون ہو گا؟ جبریل علیہ السلام نے کہا کہ آپ کو خوشخبری ہو، اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء اور ان کی امت پر جنت کو آپ اور آپ کی امت کے دخول سے پہلے حرام کر دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اب میرا دل مطمئن ہے اے ملک الموت آؤ اور دیئے گئے حکم کو پورا کرو۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے پوچھا : یا رسول اللہ ! آپ کی وفات کے بعد آپ کو غسل کون دے اور کون جنازہ پڑھائے؟ اور کون قبر میں اتارے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے علی! تم اور ابن عباس مجھے غسل دینا، جبریل جنت سے حنوط لائیں گے اور جب چارپائی پر مجھے لٹا دو تو مسجد میں رکھ کر باہر چلے جانا سب سے پہلے مجھ پر رب تعالیٰ اپنے عرش سے جنازہ پڑھے گا اور پھر جبریل پھر میکائیل پر اسرافیل پھر دوسرے ملائکہ جماعتوں کی شکل میں پڑھیں اور پھر تم لوگ صفیں بنا کر پڑھنا لیکن کوئی آگے نہ ہو۔ اتنے میں حضرت فاطمہ نے عرض کیا۔ آج تو جدائی ہے پھر میں آپ سے کب ملوں گی ؟ فرمایا کہ حوض کوثر میں آنے والوں کو پانی پلا رہا ہوں گا وہاں ملنا پوچھا وہاں نہ ملیں تو ؟ فرمایا : میزان عدل کے پاس ملنا میں وہاں امت کی شعاعت کر رہا ہوں گا۔ پوچھا کہ اگر وہاں نہ ملیں تو؟ فرمایا : مجھے پل صراط پرملنا میں وہاں رب کو پکار رہا ہوں گا کہ اے رب ! میری امت کو آگے سے بچا۔
پھر ملک الموت قریب ہوا اور اس نے روح نکالنا شروع کی جب گھٹنے تک پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے اوہ نکالا اور جب روح ناف تک پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے واکرباہ ہائے تکلیف فرمایا : تو فاطمہ کہنے لگیں آج میری تکلیف آپ کی تکلیف ہے پھر جب روح حلق تک پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبریل سے فرمایا : جبریل موت کی کڑواهٹ بڑی سخت ہے، جبریل نے اپنا منہ دوسری طرف کر لیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : جبریل میری طرف دیکھنے کو ناپسند کر رہے ہو؟ جبریل نے کہا: اے اللہ کے رسول ! آج کس میں طاقت ہے کہ وہ آپ کی جانب دیکھ سکے اور آپ سکرات الموت میں مبتلا ہیں۔ اتنے میں روح پرواز کر گئی حضرت علی نے غسل دیا ابن عباس پانی ڈال رہے تھے اور جبریل ان دونوں کے ہمراہ تھے پھر جنازے کی چارپائی مسجد میں رکھ دی گئی اور پھر سب سے پہلے رب تعالیٰ نے آپ پر نماز جنازہ پڑھی پھر جبریل پھر میکائیل پر اسرافیل اور پھر ملائکہ کی مختلف جماعتوں نے نماز جنازہ پڑھی۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے لوگوں کی آوازوں کی جس بھبھناہٹ تو سنی مگر کوئی شخص نظرنہیں آیا۔ پھر ایک ندائے غیبی سنی کوئی کہہ رہا تھا۔ اے لو گو ! اللہ تم پر رحم کرے مسجد میں داخل ہو جاؤ اور اپنے نبی کی نماز جنازہ پڑھ لو۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات کے مطابق ہم نے صفیں بنائیں اور جبریل علیہ السلام کی تکبیر پر نماز جنازہ پڑھی ہم میں سے کوئی آگے نہیں ہوا تھا پھر قبر میں حضرت علی، حضرت ابو بکر، حضرت ابن عباس اترے یوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین کر دی گئی۔
تدفین کے بعد حضرت فاطمہ نے حضرت علی سے کہا کہ کیا تم نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دفن کر دیا انہوں نے کہا ہاں : حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آج تمہارے دلوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر مٹی ڈالنا کیسے گوارا کر لیا یہ کہہ کر وہ رونے لگیں اور کہتی جاتیں۔ اے ابا جان! آج جبریل کا رابطہ ہم سے ٹوٹ گیا جبریل آپ کے پاس آسمان سے وحی لے کر آتے تھے۔
[ اتحاف سادة المتقين 294، اتنزيه الشريعة لا بن عراق 327۔ 2 ]
تحقیق الحدیث :
یہ طویل روایت ہے۔
[رواه الطبراني فى الكبير رقم 2676 و ابن جوزي فى الموضوعات 295/1- 301 مجمع الزوائد جلد 8ص 598]
◈ ہیثمی کہتے ہیں
◈ اس کو طبرانی نے روایت کیا ہے اس میں عبد المنعم بن ادریس راوی کذاب اور وضاع ہے۔
دیکھیں : [ميزان الاعتدان 419/4، المغني 409/2، الجرح والتعديل 67/6، الضعفاء والمتروكين 154/2 ]