فاسق یا فاسد عقیدہ امام کے پیچھے نماز کا حکم
ماخوذ : فتاویٰ راشدیہ، صفحہ نمبر 292

سوال

فاسد عقیدہ رکھنے والے اور خلاف سنت نماز پڑھنے والے کے پیچھے یا زانی فاسق امام کے پیچھے نماز درست ہے یا نہیں؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

فاسد عقیدہ رکھنے والے سے مراد غالباً وہ شخص ہے جو ان بنیادی عقائد پر ایمان نہ رکھتا ہو جن پر ایمان کی بنیاد قائم ہے۔ اگر سائل کی مراد یہی ہے تو ایسے شخص کے پیچھے ہرگز نماز درست نہیں، کیونکہ جس کا عقیدہ درست نہیں، وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے:

﴿وَمَن يَعْمَلْ مِنَ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ مِن ذَكَرٍ‌ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُو۟لَـٰٓئِكَ يَدْخُلُونَ ٱلْجَنَّةَ وَلَا يُظْلَمُونَ نَقِيرً‌ۭا ﴿١٢٤﴾ (النساء:١٢٤)

اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ اعمال کی قبولیت کا دارومدار ایمانِ صحیح پر ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو بھی نیک عمل کرے، خواہ مرد ہو یا عورت، بشرطیکہ وہ مومن ہو تو وہ جنت میں داخل کیا جائے گا اور اس پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں ہوگا۔ اگر ایمان ہی درست نہ ہو تو اس کے اعمال صالحہ کیسے قبول ہوں گے؟

چونکہ نماز بھی اعمال صالحہ میں شامل ہے، اس لیے جس کا ایمان درست نہ ہو، اس کی نماز بھی مقبول نہ ہوگی۔ اور جب اس کی نماز قبول نہیں تو اس کے پیچھے نماز پڑھنا سراسر بے فائدہ ہوگا۔

فاسق، فاجر اور بدعتی امام کے پیچھے نماز

◄ جو شخص فسق و فجور میں مبتلا ہو یا خلاف سنت نماز پڑھتا ہو، اس کے بارے میں بھی احادیث صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے لوگوں کو امام نہیں بنانا چاہیے۔
◄ جو شخص سنت کے خلاف نماز پڑھتا ہے وہ بدعتی ہے۔
◄ بدعتی کو امام بنانا اس کی بدعت کو فروغ دینا ہے، اور بلا کسی مجبوری کے بدعتی کا احترام کرنا بھی گناہ ہے۔

متعلقہ احادیث

حدیث ترمذی:
امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی جامع میں حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے:

((قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ثلاثه لاتجاوزصلواتهم آذانهم العبدالابق حتى يرجع وامراةباتت وزوجهاعليهاساخط وامام قوم وهم له كارهون))
قال ابوعيسى هذاحديث حسن. الترمذى’كتاب الصلوة’باب ماجاء فى من ام قوما وهم له كارهون’رقم الحديث: ٣٦٠

یعنی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تین آدمیوں کی نماز ان کے کانوں سے اوپر نہیں جاتی (یعنی اللہ کے ہاں قبول نہیں ہوتی):

➊ بھاگا ہوا غلام جب تک اپنے مالک کی طرف نہ لوٹ آئے۔
➋ وہ عورت جو رات اس حال میں گزارے کہ اس کا شوہر اس پر ناراض ہو۔
➌ وہ امام جس کی امامت کو اس کی قوم ناپسند کرے۔

امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن ہے۔

حدیث ابن ماجہ:
اسی طرح ابن ماجہ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، مگر اس میں تیسرے شخص کے طور پر
‘‘وآخران يتصارمان’’
کے الفاظ آئے ہیں، یعنی دو ایسے آدمی جنہوں نے دنیاوی معاملات کی وجہ سے ایک دوسرے سے قطع تعلقی کی ہو۔ حافظ عراقی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس کی سند حسن ہے۔

ان احادیث کا مفہوم

ان روایات سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی امام اس حالت میں نماز پڑھائے کہ مقتدی اس سے ناخوش ہوں، تو اس کی نماز قبول نہیں ہوتی۔ ظاہر ہے کہ اگر امام فاسق، فاجر، فاسد العقیدہ یا خلاف سنت نمازی ہو تو مقتدی رضامندی سے اس کے پیچھے نماز نہیں پڑھیں گے۔ ہاں اگر مقتدی بھی اسی طرح فاسق و مبتدع ہوں تو اور بات ہے۔

لیکن عام طور پر مقتدی ایسے امام سے دل ہی دل میں ناراض رہتے ہیں اور اسے ناپسند کرتے ہیں، اس لیے اس کی نماز اللہ کے ہاں قبولیت سے محروم رہتی ہے۔ جب خود امام کی نماز قبول نہ ہوئی تو اس کے پیچھے نماز پڑھنے کا کیا فائدہ ہوگا؟

بہتر امام کے متعلق ہدایت

امام حاکم نے حضرت مرثد غنوی رضی اللہ عنہ کے ترجمہ میں رسول اللہ ﷺ کی حدیث روایت کی ہے:

((ان سركم ان تقبل صلاتكم فليئومكم خياركم فانهم وفدكم فيمابينكم وبين ربكم عزوجل.))
المستدرک للحاکم’جلد٣’صفحه٢٢٢

یعنی نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"اگر تمہیں یہ پسند ہے کہ تمہاری نماز قبول ہو تو تمہارے امام تم میں سے بہترین لوگ ہونے چاہئیں، کیونکہ وہ تمہارے اور تمہارے رب کے درمیان سفیر ہیں۔”

یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ امام صرف نیک و صالح شخص کو بنانا چاہیے۔ اگر بدعتی یا فاسق کو امام بنایا جائے تو مقتدیوں کی نماز بھی قبول نہ ہوگی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسے امام کو امام بنانا اس کی بدعت و فسق کو فروغ دینا ہے اور یہ عمل انتہائی مذموم ہے۔ مقتدی بھی ایسے امام کا احترام کرکے دراصل اس کی بدعت کے فروغ میں شریک ہوتے ہیں، اس لیے ان کی نماز بھی قبولیت سے محروم ہوجاتی ہے۔

خلاصہ

◈ فاسد عقیدہ رکھنے والے کے پیچھے نماز بالکل درست نہیں۔
◈ فاسق، فاجر اور خلاف سنت نمازی کو امام بنانا بھی منع ہے۔
◈ بدعتی امام کے پیچھے نماز پڑھنا اس کی بدعت کو فروغ دینا ہے، جو ناجائز ہے۔
◈ صحیح حدیث کے مطابق امام کو ہمیشہ نیک اور بہترین شخص منتخب کرنا چاہیے تاکہ مقتدیوں کی نماز بھی قبول ہو۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے