فاتحہ خلف الامام
«عن عبادة بن الصامت عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: هل تقرؤن معي؟ قالوا: نعم قال: لا تفعلوا إلا بأم القرآن فإنه لا صلوة لمن لم يقرأ بها»
عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا: ”کیا تم میرے ساتھ (یعنی امام کے پیچھے) قراءت کرتے ہو؟“ تو انہوں نے کہا: جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سورہ فاتحہ کے سوا کچھ بھی نہ پڑھو، کیونکہ جو شخص اس (فاتحہ) کو نہیں پڑھتا اس کی نماز ہی نہیں ہوتی۔“ کتاب القراء للبیہقی ص 64، ح 121 طبع بیروت لبنان، وقال الیہقی بعیثہ اسناده صحیح روانہ ثقات
اس حدیث کو امام بیہقی کے علاوہ ضیاء مقدسی نے صحیح اور دارقطنی نے حسن کہا ہے۔
فوائد:
(1)اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ جہری و سری نمازوں میں مقتدی کا وظیفہ فاتحہ خلف الامام سراً پڑھنا ہے۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بھی جہری و سری نمازوں میں فاتحہ خلف الامام پڑھنے کا حکم دیا ہے۔ [المستدرک علی الصحیحین: جلد 1 ص 239 حدیث 873] اسے حاکم، ذہبی اور دارقطنی نے صحیح کہا ہے۔
(2)دیوبندیوں اور بریلویوں کے نزدیک امام و منفرد دونوں پر سورہ فاتحہ فرض نہیں ہے بلکہ صرف (پہلی) دو رکعتوں میں واجب ہے۔ آخری دو رکعتوں میں اگر جان بوجھ کر فاتحہ نہ پڑھے تو نماز بالکل صحیح ہے۔ [دیکھیے قدوری ص 22، 23 ہدایہ اولین، ج 1 ص 148، فتح القدیر لابن ہمام ج 1 ص 395، بہشتی زیور ص 163 حصہ دوم ص 19، باب ہفتم مسئلہ 17، بہار شریعت حصہ سوم ص 41] اگر امام یا منفرد کی سورہ فاتحہ پہلی دو رکعتوں میں بھی سہواً رہ جائے تو دیوبندیوں و بریلویوں کے نزدیک سجدہ سہو سے کام چل جائے گا، رکعت دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔
(3)زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا اثر لا قراءة مع الإمام فى شيء (مسلم: جلد 215/1 حدیث 577) قراءة المقتدی بالجہر پر محمول ہے۔ فاتحہ اس کے عموم سے مخصوص ہے۔ مع الامام کا مطلب جہراً مع الامام ہے۔ یہی جواب ابن عمر رضی اللہ عنہ وغیرہ کے آثار کا ہے من صلى وراء الإمام كفاه قراءة الإمام یعنی: مقتدی کے لیے امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنا ضروری ہے، اس کے علاوہ باقی قراءت میں امام کی قراءت کافی ہے۔
(4) جابر رضی اللہ عنہ کا اثر مرفوع حدیث کے مخالف ہونے کی وجہ سے قابل قبول نہیں۔ ظفر احمد تھانوی صاحب دیوبندی کہتے ہیں:
ولا حجة فى قول الصحابي فى معارضة المرفوع
مرفوع حدیث کے مقابلے میں صحابی کا قول حجت نہیں ہوتا۔ [اعلاء السنن: 438/1 حدیث 432، دیکھیے ص 37]
خود دیوبندیوں کے نزدیک دو رکعتیں فاتحہ کے بغیر ہو جاتی ہیں، جیسا کہ نمبر 2 میں گزر چکا ہے، جبکہ جابر رضی اللہ عنہ کے نزدیک ایک رکعت بھی فاتحہ کے بغیر نہیں ہوتی۔ لہذا اس اثر سے دیوبندیوں و بریلویوں کا استدلال، خود ان کے مسلک کی رو سے بھی صحیح نہیں ہے۔
(5) فاتحہ خلف الامام کی دوسری مرفوع احادیث کے لیے تحقیق الکلام، الکواکب الدریہ وغیرہما کا مطالعہ کریں، نیز حدیث نمبر 14 دیکھیں۔