سوال
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ:
"ایک شخص کی وفات مدینہ میں ہوئی جو مدینہ ہی میں پیدا ہوا تھا، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی اور پھر ارشاد فرمایا:
‘کاش! یہ شخص اپنے پیدا ہونے کی جگہ کے علاوہ کسی اور جگہ مرا ہوتا۔’
صحابہؓ نے عرض کی:
‘یا رسول اللہ! ایسا کیوں؟’
آپ ﷺ نے فرمایا:
‘جو شخص اپنے وطن کے علاوہ کسی دوسری جگہ مرتا ہے تو اس کے وطن سے لے کر اس کے مرنے کے مقام تک کی جگہ اس کے لیے جنت میں پیمائش کی جاتی ہے۔’
[رواه النسائي وابن ماجه]
جواب از فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
بعض علماء نے اس روایت کو "حسن” قرار دیا ہے۔
یہ حدیث پردیسی کی موت کی فضیلت کو واضح کرتی ہے، کہ جو شخص اللہ کی رضا کے لیے، دین کی خاطر یا کسی اور جائز مقصد سے اپنے وطن سے باہر ہو اور وہیں اس کی وفات ہو جائے، تو اسے ایک خاص اجر عطا کیا جاتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ کی اس تمنا سے اندازہ ہوتا ہے کہ اپنے وطن سے دور وفات پانے والے شخص کو جنت میں اضافی انعام دیا جاتا ہے، یعنی وطن سے لے کر وفات کی جگہ تک کا فاصلہ جنت میں نعمت کے طور پر ناپا جاتا ہے۔
[رواه النسائي وابن ماجه]
شیخ کا تبصرہ
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ نے اس روایت کی صحت پر روشنی ڈالتے ہوئے بیان فرمایا کہ بعض اہل علم نے اسے حسن حدیث قرار دیا ہے، جو اس کے قابل قبول ہونے کی دلیل ہے۔