غیر مسلم کی موت پر "إنا للہ و إنا إلیه راجعون” کہنا؟ مکمل شرعی رہنمائی
تحریر : قاری اسامہ بن عبدالسلام

کسی غیر مسلم (کافر) کی وفات پر "إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ”

کہنا شرعی اعتبار سے ایک اہم اور نازک مسئلہ ہے، کیونکہ اس کلمے میں نہ صرف مصیبت پر صبر کا اظہار ہے، بلکہ اکثر اس میں مرنے والے کے لیے رحمت و مغفرت کی ضمنی دعا کا پہلو بھی نکلتا ہے۔

آیئے اسے قرآن، حدیث، اور اجماع صحابہ کی روشنی میں تفصیل سے سمجھتے ہیں:

📖 1۔ قرآن مجید سے رہنمائی:

◈ آیت:

﴿الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوا: إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ﴾
"وہ لوگ جب انہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو کہتے ہیں: بے شک ہم اللہ کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں”
(سورۃ البقرۃ: 156)

🔸 یہ آیت مومنوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو اپنی ذاتی مصیبت پر صبر کا اظہار کرتے ہیں۔
🔹 اس کلمے کا اصل محل وہ موقع ہوتا ہے جب کوئی مؤمن کسی دکھ یا نقصان سے دوچار ہو۔
📌 اس سے ثابت ہوا کہ یہ کلمہ خود پر نازل ہونے والی مصیبت کے اظہار کے لیے ہے، نہ کہ کسی غیر مسلم کی موت پر اس کے لیے دعا کے طور پر۔

📚 2۔ احادیثِ نبوی ﷺ سے دلائل:

❌ کافر کے لیے دعائے مغفرت کی ممانعت:

عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله ﷺ:
"استأذنت ربي أن أستغفر لأمي فلم يؤذن لي، واستأذنته أن أزور قبرها فأذن لي”
(صحیح مسلم: 976)

📌 نبی ﷺ کو اپنی کافر ماں کے لیے دعا کی اجازت نہیں ملی، حالانکہ آپ کی شفقت اور مقام سب پر واضح ہے۔

❌ واضح قرآنی ممانعت:

﴿مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَن يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ﴾
"نبی اور مؤمنوں کو یہ جائز نہیں کہ وہ مشرکین کے لیے مغفرت کی دعا کریں”
(سورۃ التوبۃ: 113)

🔹 اس سے واضح ہو گیا کہ کسی بھی کافر یا مشرک کے لیے دعا کرنا جائز نہیں۔

👥 3۔ اجماعِ صحابہؓ:

🔹 تمام صحابہ کرامؓ کا اس پر اجماع تھا کہ کسی کافر کی موت پر اس کے لیے رحمت، مغفرت یا دعائیہ الفاظ استعمال نہیں کیے جائیں گے۔

ابن قدامہؒ فرماتے ہیں:
"ولا يُصَلَّى على كافر، ولا يُدعى له بالمغفرة، ولا يُترحَّم عليه، وهذا لا خلاف فيه بين المسلمين.”
(المغني لابن قدامہ 2/429)

📌 یعنی: "کافر پر نماز نہیں پڑھی جائے گی، نہ اس کے لیے دعائے مغفرت کی جائے گی، نہ رحم کی دعا — اور اس پر مسلمانوں کا اجماع ہے۔”

💬 "إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ” کہنا؟

🔸 اگر مقصد یہ ہو:
کہ میں خود اس خبر سے صدمے میں ہوں،
یا دنیا کے فانی ہونے کا احساس ہو رہا ہے،
اور یہ کلمہ اپنے غم و عبرت کے لیے کہا جائے
👉 تو بعض علماء کے نزدیک یہ جائز ہے — بشرطیکہ میت کے لیے دعا کا قصد نہ ہو۔

❌ لیکن اگر:
کلمہ اس نیت سے کہا جائے کہ جیسے میت اللہ کی طرف لوٹی،
یا اس کے لیے کسی درجہ میں رحمت یا قبولیت کا پہلو نکلے
👉 تو یہ حرام اور عقیدے کے لیے خطرناک عمل ہے۔

🛑 خلاصہ فتویٰ (جامع جواب):

سوال: کیا غیر مسلم کی وفات پر
"إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ”
کہنا جائز ہے؟

جواب:
📌 اگر یہ الفاظ اپنے صدمے یا دنیا کے فانی ہونے کے احساس میں کہے جائیں، نہ کہ میت کے لیے دعا یا رحم کے ارادے سے، تو جائز ہے۔
📌 لیکن اگر اس میں میت کے لیے دعا، مغفرت یا قبولیت کی نیت ہو، تو یہ ناجائز اور حرام ہے، کیونکہ اس سے قرآن و سنت کے واضح احکام کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔

✅ قابلِ عمل جملے:

اگر غیر مسلم کی موت پر کسی تبصرے کی ضرورت ہو تو ایسے جملے کہے جا سکتے ہیں:

◈ "دنیا کی زندگی فانی ہے، ہر ایک کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔”
◈ "ہمیں عبرت حاصل کرنی چاہیے۔”
◈ "موت ہر انسان کے لیے ایک حقیقت ہے، ہمیں اپنی آخرت کی تیاری کرنی چاہیے۔”

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1