سوال
کوئی عورت جو غیر مسلم ہو کسی آدمی کے ساتھ بھاگ جائے اور پھر جا کر اسلام قبول کرے تو اس کے متعلق کیا حکم ہے؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ کیسا اسلام ہے کہ کوئی عورت برائی کے ارادے سے کسی کے ساتھ بھاگ جائے، پھر اس کے عشق میں مبتلا ہو کر مسلمان ہو جائے؟ ایسے مقصد والے اسلام کی اللہ تعالیٰ کو کوئی حاجت نہیں ہے۔ صحیح حدیث میں آیا ہے:
((فمن كانت هجرته إلى الدنيا يصيبها أو إمرأة ينكحها فهجرته إلى ما هاجر اليه.))
’كتاب’ رقم الحديث: ١
اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص محض شادی کے لیے ایمان قبول کرے یا دین کا کوئی بڑا کام کرے، تو اس کا یہ ایمان اور عمل معتبر نہیں ہے۔
اسلام میں حکم یہ ہے کہ کافر عورتیں جب مسلمان ہو کر آئیں تو ان کا امتحان لیا جائے کہ آیا وہ واقعی پختہ مسلمان ہیں یا نہیں۔ پھر جب یہ بات واضح ہو جائے کہ وہ سچی مؤمنات ہیں تو مسلمان ان سے نکاح کرسکتے ہیں، جیسا کہ سورۃ الممتحنہ میں وضاحت موجود ہے۔
مزید وضاحت
◈ ایسے مقصد والا ایمان معتبر نہیں۔
◈ لیکن اگر عورت اسلام قبول کرنے کے بعد واقعی شریعت پر عمل کر رہی ہو، تو اسے دوبارہ کافروں کی طرف واپس نہیں بھیجا جائے گا، بلکہ مسلم معاشرے کے اندر ہی رکھا جائے گا۔
◈ البتہ فوراً اس شخص سے نکاح نہیں کیا جائے گا جس کے عشق میں مبتلا ہو کر بھاگی ہے۔
◈ دونوں کو چاہیے کہ کافی عرصہ توبہ کرتے ہوئے الگ رہیں۔
◈ پھر مناسب مدت کے بعد کسی بڑے شخص کو ولی بنا کر شرعی نکاح کیا جائے تو یہ نکاح درست ہوگا۔
غلط طرز عمل کی وضاحت
اگر عورت ایک رات کسی کے ساتھ گناہ میں گزار لے اور دوسرے دن نکاح کر لے، تو یہ طریقہ جائز نہیں ہے، جیسا کہ کتاب و سنت میں وضاحت کے ساتھ بیان ہوا ہے۔ اس کے لیے سورۃ النور، پارہ 18، رکوع 1 اور اس کی تفسیر ملاحظہ کریں۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب