کافر کے لیے اسلام قبول کرنا: ایک شرعی فریضہ
سوال
کیا کافر کے لیے یہ واجب ہے کہ وہ اسلام قبول کر لے؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اسلامی شریعت کی روشنی میں ہر کافر—خواہ وہ عیسائی ہو، یہودی ہو یا کسی اور مذہب کا پیروکار—پر یہ واجب ہے کہ وہ اسلام کو قبول کرے۔ اس کی دلیل قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿قُل يـأَيُّهَا النّاسُ إِنّى رَسولُ اللَّهِ إِلَيكُم جَميعًا الَّذى لَهُ مُلكُ السَّمـوتِ وَالأَرضِ لا إِلـهَ إِلّا هُوَ يُحيۦ وَيُميتُ فَـٔامِنوا بِاللَّهِ وَرَسولِهِ النَّبِىِّ الأُمِّىِّ الَّى يُؤمِنُ بِاللَّهِ وَكَلِمـتِهِ وَاتَّبِعوهُ لَعَلَّكُم تَهتَدونَ ﴿١٥٨﴾
… سورة الأعراف
ترجمہ:
’’(اے محمد!) کہہ دو، اے لوگو! بے شک میں تم سب کی طرف اللہ کا بھیجا ہوا (رسول) ہوں، وہ جو آسمانوں اور زمین کا بادشاہ ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہی زندگانی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے۔ تو تم اللہ پر اور اس کے رسول، پیغمبر امی پر، جو خود بھی اللہ پر اور اس کے تمام کلام پر ایمان رکھتے ہیں، ایمان لاؤ اور ان کی پیروی کرو تاکہ تم ہدایت پاجاؤ۔‘‘
اسلام قبول کرنا کیوں واجب ہے؟
◈ قرآنِ کریم کی واضح آیت سے یہ ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی رسالت عام ہے، یعنی تمام انسانوں کے لیے ہے۔
◈ اس عمومی دعوت کی روشنی میں، ہر فرد پر لازم ہے کہ وہ ایمان لائے اور نبی کریم ﷺ کی اتباع کرے۔
غیر مسلموں کے لیے ایک رعایت
اگرچہ اسلام قبول کرنا واجب ہے، تاہم اسلام نے اللہ تعالیٰ کی رحمت اور حکمت کے تحت بعض غیر مسلموں کو اپنے مذہب پر قائم رہنے کی اجازت دی ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ:
◈ وہ اسلامی احکام کا لحاظ رکھیں
◈ مسلمانوں کی حکومت کے ماتحت ہو کر جزیہ ادا کریں
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿قـتِلُوا الَّذينَ لا يُؤمِنونَ بِاللَّهِ وَلا بِاليَومِ الءاخِرِ وَلا يُحَرِّمونَ ما حَرَّمَ اللَّهُ وَرَسولُهُ وَلا يَدينونَ دينَ الحَقِّ مِنَ الَّذينَ أوتُوا الكِتـبَ حَتّى يُعطُوا الجِزيَةَ عَن يَدٍ وَهُم صـغِرونَ ﴿٢٩﴾
… سورة التوبة
ترجمہ:
’’جو لوگ اہل کتاب میں سے اللہ پر ایمان نہیں لاتے اور نہ روز آخرت پر (یقین رکھتے ہیں) اور نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول نے حرام کی ہیں اور نہ دین حق کو قبول کرتے ہیں، ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ وہ ذلیل ہو کر اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں۔‘‘
نبی کریم ﷺ کی ہدایات جنگ کے موقع پر
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ جب کسی لشکر یا سریہ کے لیے کسی کو امیر مقرر فرماتے، تو اس کو درج ذیل باتوں کی ہدایت فرماتے:
«اُدْعُهُمْ اِلٰی ثَلَاثِ خِصَالٍ اَوْ خِلَالٍ فَأَيَّتُهُنَّ مَا اَجَابُوکَ فَاقْبَلْ مِنْهُمْ وَکُفَّ عَنْهُمْ»
(صحیح مسلم، الجهاد والسیر، باب تامیرالامراء… حدیث: ۱۷۳۱)
ترجمہ:
’’انہیں تین باتوں کی دعوت دو، وہ ان میں سے کسی ایک کو بھی تسلیم کر لیں تو ان کی طرف سے تم اسے قبول کر لو اور ان سے (جنگ کرنے سے) رک جاؤ۔‘‘
ان تین باتوں میں سے ایک شرط جزیہ کی ادائیگی بھی ہے۔
علماء کا راجح قول
◈ جمہور علماء کے مطابق نہ صرف اہل کتاب (یہود و نصاریٰ) بلکہ دیگر غیر مسلم اقوام سے بھی جزیہ قبول کیا جا سکتا ہے۔
◈ اس رائے کی بنیاد قرآن و سنت کے نصوص پر ہے۔
خلاصہ کلام
◈ ہر غیر مسلم پر لازم ہے کہ وہ اسلام میں داخل ہو جائے۔
◈ اگر وہ اسلام قبول نہ کرے، تو اسلام کے قوانین کے تحت جزیہ دے کر اسلامی ریاست کے ماتحت رہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب