سوال
کیا غیر محرم سے قرآنی آیات پر گفتگو کی جا سکتی ہے، خصوصاً جب یہ گفتگو فلاحی تنظیم کے گروپ میں ہو اور ذاتی نہ ہو؟ نیز، اگر قرآنی آیات پر سائنسی پہلو سے بات کی جائے تو کیا ایسا کرنا درست ہے؟
جواب از فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"وَّقُلۡنَ قَوۡلًا مَّعۡرُوۡفًا”
[سورة الاحزاب: 32]
’’وہ بات کہو جو اچھی ہو۔‘‘
گفتگو کے اصول
◈ معروف بات: دینی اور اچھی بات جو جذبات کو برانگیختہ نہ کرے اور جس میں نرمی، لوچ یا جھول نہ ہو۔
◈ نیت: اگر گفتگو کا مقصد صرف سمجھنا اور سمجھانا ہو، اور اس میں کوئی غیر شرعی ارادہ شامل نہ ہو تو ان شاء اللہ یہ جائز ہے۔
◈ حدود: پردے کا اہتمام کرتے ہوئے اور بحث کو محدود رکھتے ہوئے غیر محرم سے بات کی جا سکتی ہے۔
سائنسی توجیہات اور ان کی شرائط
اگر قرآنی آیات پر سائنسی پہلو سے بات کی جائے تو درج ذیل امور کا خیال رکھنا ضروری ہے:
◈ شریعت کے مطابق ہونا: سائنسی توجیہات قرآن و سنت کے فہم اور اصولوں کے خلاف نہ ہوں۔
◈ فہمِ سلف کا لحاظ: ایسی توجیہات نہ کی جائیں جو صحابہ کرام اور علماء سلف کے فہم کے خلاف ہوں۔
◈ حدیث کا احترام: کسی سائنسی وضاحت سے کسی حدیث کا انکار لازم نہ آئے۔
خلاصہ
◈ جائز حدود میں گفتگو: گروپ میں غیر محرم کے ساتھ قرآنی آیات پر گفتگو، اگر مقصد سمجھنا اور سمجھانا ہو اور بات معروف کے دائرے میں رہے تو یہ درست ہے۔
◈ شرعی قیود: پردے کا اہتمام، گفتگو کی حدود، اور شریعت کے اصولوں کی پابندی لازمی ہے۔